صبر نبوت کی عظیم صفت
یہ نبوت کی عظیم صفتوں میں سے ایک ہے اور ان صفتوں کی قوت کے بغیر بار نبوت نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا (الانعام: 34)
ترجمہ اورآپ سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انہوں نے جھٹلائے جانے اور تکلیف دئیے جانے پر صبر کیایہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی۔
قرآن مجید میں صبر مصطفٰی کے دلائل
ارشاد باری ہے
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ۔(الاحقاف: 35)۔
ترجمہ: تو (اے حبیب!)تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا ۔
نیز ارشاد باری ہے
فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ (المآئدۃ: 13)
ترجمہ : تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزکرو ۔
مروی ہے کہ جب آیت کریمہ معاف کرنے امر بالمعروف اور جاہلوں سے درگزر کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے اس کی توضیح دریافت کی۔ انہوں نے کہا جب تک میں رب العزت جل جلالہ سے دریافت نہ کرلوں عرض نہیں کر سکتا۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام گئے اور آئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ السلام اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
" کہ جو آپ سے دور ہو آپ اس سے قریب ہوں اور جو آپ کو محروم رکھے اسے عنایت فرمائیں اور جو آپ پر ظلم و ستم کرے اسے معاف فرمائیں۔"
غزوہ احد میں صبر مصطفٰی کا عظیم مظہر
حدیث پاک میں ہے :
کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے ذاتی معاملہ اور مال و دولت کے سلسلے میں کسی سے انتقام(بدلہ) نہ لیا۔ مگر اس شخص سے جس نے خدا کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیا تو اس سے خدا کے لیے بدلہ لیا اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے زیادہ اشد و سخت صبر غزوہ احد میں تھا کہ کفار نے آپ کے ساتھ جنگ و مقابلہ کیا اور آپ کو شدید ترین رنج والم پہنچایا مگر آپ نے ان پر نہ صرف صبر و عفو پر ہی اکتفاء فرمایا بلکہ ان پر شفقت و رحم فرماتے ہوئے ان کو اس جہل و ظلم میں معذور قرار دیا اور فرمایا:
’’اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ‘‘
ترجمہ :یعنی اے خدا! میری قوم راہ راست پر لا کیونکہ وہ جانتے نہیں ۔
کیا رسول اکرم نے کبھی ذاتی بدلہ لیا؟
جی نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے بدلہ نہیں لیا بلکہ درگزر اور معاف فرما دیا اور دعاؤں سے نوازا چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ :
’’اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ ‘‘
ترجمہ : اے خدا! انہیں معاف فرما دے۔
اور جب صحابہ کو بہت شاق گزرا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ! کاش ان پر بددعا فرماتے کہ وہ ہلاک ہو جاتے ۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کے لیے مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ میں حق کی دعوت اور جہان کے لیے رحمت ہو کر مبعوث ہوا ہوں۔
کیا حضور نے ہر موقع پر معاف کیا یا کہیں بددعا بھی فرمائی؟
یہ بات آپ کی ذات شریف کے حق میں خاص تھی کہ آپ نے صبر وعفو سے کام لیا لیکن کفار نے جب روز احزاب نماز سے باز رکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر دنیا و آخرت کے عذاب کی دعا کی اور فرمایا:
مَلا اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا۔
یعنی، اللہ تعالیٰ ان کافروں کے گھروں کو اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے ان قبائل پر بددعا کی جو کمزور اور ناتواں مسلمانوں کو قسم قسم کے عذاب دیتے تھے اور متفق علیہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ((لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ)) آپ کے اوپر کسی معاملہ کی ذمہ داری نہیں ہے “ اسی موقع پر نازل فرمائی ۔ اسی طرح ان کفار پر بددعا کی جو فرار ہو گئے تھے ۔ کفار پر یہ بددعائیں دین اسلام کے حق اور مسلمانوں کے حقوق کے فوت ہونے کی وجہ سے تھیں اور اسی امر الہی کی بجا آوری میں تھی کہ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ(تحریم: 9)۔
ترجمہ: اے نبی ! کفار و منافقین پر جہاد کیجئے اور ان پر خوب شدت کیجئے۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان اشقیاء کے گروہ پر یہ دعا کی جنہوں نے نماز کی حالت میں آپ کی پشت مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی رکھی تھی۔
حلم نبوی اور دشمنوں کا مسلمان ہونا
احبار یعنی علمائے یہود میں سے ایک شخص ابن سعنہ تھا اس سے روایت کرتے ہیں اس نے بتایا کتب سابقہ میں سے علامات نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی مگر حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور میں جب کہ میں نے آپ کی طرف نظر ڈالی نہ دیکھ لی ہولیکن دو باتوں کا میں امتحان نہ کر سکا تھا ایک یہ کہ توریت میں لکھا ہوا تھا کہ اس کا علم اس کے جہل کو زیادہ نہیں کرے گا اور شدت جہل اس کے علم ہی کو بڑھائے گی۔ چنانچہ میں نے آپ سے تلطف کیا۔ یہاں تک کہ میں نے معاملہ میں خلط ملط کیا۔ اس طرح میں نے آپ کے علم وحلم کو پہچانا اور کلمہ ’’ أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ ‘‘ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
مخالفین کے ظلم پر حضور کا ردعمل کیسا تھا؟
امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک میں نجرانی سخت حاشیہ دار چادر تھی ایک اعرابی نے قریب آ کر چادر کو پکڑ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ کو کھینچا اور چادر کوسخت لپیٹنے لگا۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک کی طرف دیکھا تو سخت حاشیہ دار چادر کی لپیٹ نے آپ کی گردن مبارک کو چھیل دیا تھا۔ اس کے بعد اعرابی کہنے لگا " اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خدا کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے مجھے دینے کا حکم فرما دیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف ملاحظہ فرمایا۔ اور تبسم فرمایا اور مجھے اسے دینے کا حکم فرمایا۔
رسول اللہ کا حلم اور بردباری آج کے دور کے لیے کیا پیغام رکھتی ہے؟
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے علم و بردباری کا یہ بیان ہے کہ کس طرح آپ اپنی جان و مال کی ایذاؤں پر صبر فرماتے اور ظلم و جفاء سے درگزر کر تے تھے۔ یہ سب اس خواہش میں تالیف قلوب تھی کہ یہ لوگ اسلام لے آئیں اور آپ کے اوصاف حمیدہ میں مذکور ہے کہ آپ نہ خود سخت کلامی فرماتے تھے اور نہ کسی کی سخت کلامی کا بدلہ لیتے تھے۔ بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے تھے ۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نہ گالی دینے والے تھے نہ فحش کلامی او لعنت کرنے والے تھے۔
فحش میں قول و فعل اور خصلت سب شامل ہیں لیکن اس کا استعمال اکثر قول و کلام پر ہوتا ہے اور یہ صفت بیان کرنا کہ آپ کا قول نہ فاحش ہوتا نہ متفحش ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ آپ کی عادت ایسی تھی اور نہ آپ قصد و ارادہ سے سخت کلامی فرماتے ۔ متفحش اسے کہتے ہیں جو قصد و ارادہ اور کثرت و تکلف سے سخت کلامی کرے اور فاحش‘ اس سے زیادہ عام ہے۔
امت کے گناہگاروں پر حضور کی شفقت
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امت پر شفقت و مہربانی فرمانے کے قبیل سے یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امت کے کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کے گناہوں اور اذیتوں کی پردہ پوشی کی جائے اور فرمایا: جس سے محرمات کے ساتھ مباشرت کا گناہ سرزد ہو جائے اسے چاہیے کہ وہ گناہ کو چھپائے افشا نہ کرے اور امت پر حکم فرمایا جن لوگوں پر حد شرعی قائم ہو جائے ان کے لیے خدا سے بخشش کی دعا مانگیں اور ان پر شفقت و مہربانی کریں اور کسی پر تبرا کرنے گالی دینے اور لعنت کرنے کی ممانعت فرمائی چنانچہ فرمایا:
﴿لَا تَلْعَنُوهُ فَإِنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ﴾
ترجمہ : کسی مسلمان پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
صبر، حلم اور رحمت کا درس
اس میں اشارہ فر مایا کہ اللہ تعالٰی دلوں کی باطنی حالت پر نظر فرماتا ہے اگرچہ ظاہر میں اس سے کوئی خطا یا ذلیل حرکت سرزد ہوئی ہو۔ صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ صدیق رضی اللّٰہ عنھا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے حاضر بارگاہ ہونے کی اجازت مانگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاضر ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جب دیکھا تو فرمایا یہ شخص اپنے قبیلہ کا برتر شخص ہے اور جب وہ بیٹھ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کشادہ روی فرمائی اور خوشی ومسرت کا اظہار کیا۔ پھر جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اول نظر مبارک ڈالی تھی تو اس کے بارے میں ایسا ایسا فرمایا تھا اور جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے کشادہ روئی اور اس کے ساتھ خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا یہ کیا بات تھی ۔ فرمایا: اے عائشہ بڑی ہی تم نے مجھے فحاشی ( سخت کلام ) اور درشت خو کب پایا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ خدا کے نزدیک وہ شخص بہت برا ہے جسے لوگ ڈر اور خوف کی بناء پر چھوڑ دیں اور اس کے شر وفساد سے بچتے ہیں:
یہ عبارت دو معنی کا احتمال رکھتی ہے ایک یہ کہ اس میں اپنی ذات گرامی کی طرف اعتذار کے طور پر اور اس شخص سے تلطف و خوشی کے اظہار کرنے میں اشارہ فرمایا اور سخت کلامی اور درشت خوئی سے منع فرمایا تاکہ لوگ قریب آنے سے نہ گھبرائیں اور دور نہ بھاگیں اور دوسرا احتمال یہ کہ اس شخص کے مال کی طرف نسبت و اشارہ فرمایا اور بیان کیا کہ وہ ایسا برا شخص ہے جس کے شر سے لوگ ڈرتے ہیں اور اس کی برائی کو اس کے سامنے نہیں لا سکتے اور اس کے شر کے خوف سے اس کی مدارات کرتے ہیں۔
تو ان تمام واقعات سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صبر و حلم کتنا کامل تھا کہ اپنے تواپنے غیروں،دشمنوں، منافقوں پر بھی کمال رحم و شفقت فرماتے اور عفو و درگذر سے کام لیتے تھے ۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!