وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس وہ جامع شخصیت ہے جن میں تمام انبیائے سابقین کے معجزات جمع نظر آتے ہیں۔ آپ ہر زبان، جانور، درخت اور پتھر کی آواز پہچانتے تھے، کھجور کے خوشے نے نبوت کی گواہی دی، چھڑی نور بن گئی، مردہ بیٹی زندہ ہوئی اور درخت خود چل کر رسالت کی تصدیق کرتا ہوا آیا۔ یہ روشن معجزات ایمان کو حرارت دیتے ہیں، محبتِ رسول کو دلوں میں راسخ کرتے ہیں اور عقیدہ نبوت کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔

November 24, 2025

جامع معجزات اور کامل شخصیت

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس جامع المعجزات ہے۔انبیائے سابقین کو فرداً فرداً جو معجزے عطا کیے گئے، وہ سب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وجود مبارک میں جمع ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بال بال معجزہ قرار پایا۔ ارشاد ربانی ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۔ (النساء: 174)

ترجمہ:لوگو! بلاشبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک سرتاپا روشن دلیل آئی۔

حضورسب جانتے ہیں

تمام زبانوں کا علم
علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اَنَّ اللّٰهَ عَلَّمَهٗ جَمِيْعَ اللُّغَاتِ، فَكَانَ يُخَاطِبُ كُلَّ قَوْمٍ بِلُغَتِهِم یعنی اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام زبانیں سکھا دی تھیں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر قوم سے اُسی کی زَبان میں کلام فرمایا کرتے تھے۔ (حاشیۃ الصاوی،پ13،ابراہیم،تحت الایۃ:4،ج 3،ص1014)

شارحِ بُخاری امام احمد بن محمد قسطلانی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی نے بھی اس بات کو کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔(مواہب لدنیہ،ج2،ص53)

مفسرشہیرحضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قدرتی طور پر تمام زبانیں جانتے ہیں جب حضور جانوروں، پتّھروں، کنکروں کی بولیاں سمجھتے ہیں تو انسانوں کی بولی کیوں نہ سمجھیں گے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص335)

مفسر شہیرحکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ہمارے حضور زندگی شریف میں تمام زبانیں جانتے ہیں حتّٰی کہ لکڑی و پتّھر کی زبانیں، جانور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فریادیں کرتے تھے اور اب بھی ہر زبان سے واقف ہیں، حضور کے روضہ پر ہر فریادی اپنی زبان میں عرض و معروض کرتا ہے وہاں ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص135)

اسلام قبول کرنے کی سعادت

ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس مسجدِ حرام میں ایک عجمی وفد پہنچا۔ ان میں سے کوئی بھی نبیّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہیں جانتا تھا۔ ان میں سے ایک شخص نے اپنی زَبان میں کہا: من ابون اسیران یعنی تم میں اللہ کے رسول کون ہیں ؟ حاضرین میں سے کوئی بھی ان کی بات نہ سمجھ سکا۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”اَشْکَدّ اور“یعنی یہاں میرے پاس آگے آجاؤ،وہ قریب آگئے اور گفتگو کرنے لگے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں ان کی زَبان میں جواب دیتے رہے، آخِرکار انہوں نے اسلام قبول کیا، آپ سے بیعت کی اور پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے۔(نسیم الریاض،ج2،ص134)

وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی،وہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی

آؤ بازارِ مصطفےٰ کو چلیں،کھوٹے سکے وہیں پہ چلتے ہیں

بے زبانوں کی زبان بھی سمجھتے تھے

درخت کا سلام اور سایہ کرنا
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک بار سفر میں کسی جگہ سو رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک درخت زمین چیرتا ہوا آیا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سایہ کرلیا، پھرواپس اپنی جگہ چلا گیا۔ جب نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوئے اور میں نے اس بات کا ذِکْر کیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اِجازت طَلَب کی تھی کہ وہ رسولُ اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو (یعنی مجھے) سلام کرے۔اللہ کریم نے اسے اجازت عطا فرمائی۔(مشکاۃ المصابیح،ج2 ،ص393، حدیث:5922مختصراً)

مشہور مفسرحکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس واقعے کے تحت فرماتے ہیں:

درخت کی یہ حاضری صرف سایہ کرنے کے لیے نہ تھی بلکہ مجھے (نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو) سلام کرنے کے لئے تھی اس سے معلوم ہوا کہ حضور انور(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو جانور درخت بھی سلام کرتے ہیں دوسرے یہ کہ حضور انور سوتے میں بھی سلام کرنے والوں کے سلام سنتے انہیں جواب دیتے ہیں آج بھی بعد وفات حضور کو دنیا سلام کرتی ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی مخلوق کو حضور کی بارگاہ میں سلام کرنے بھیجتا ہے۔ دیکھو درخت اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر سلام کرنے آیا تھا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج8،ص240)

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم، جانور بھی کریں جن کی تعظیم

سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم، پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

(حدائق بخشش،ص112)

عالم حیوانات کے معجزات

اونٹ کی فریاد
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

ہم نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ ہمارا گزر ایک ایسے اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی دیا جا رہا تھا۔ (یعنی اس وقت کھیت والے اس پر کھیت کو پانی دے رہے تھے۔) اُونٹ نے جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے جھکادی۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اُونٹ کا مالِک کہاں ہے؟ مالِک حاضِر ہوا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ اُونٹ بیچتے ہو؟ اس نے عرض کی: نہیں، بلکہ یہ آپ کے لئے تحفہ ہے۔ مزید عرض کی کہ یہ ایسے گھرانے کا ہے کہ جن کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس اونٹ نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چاراکم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچّھا سُلُوک کرو۔ (مشکاۃ المصابیح،ج 2،ص393، حدیث:5922 مختصراً)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:

ایک یہ کہ حضور انور جانوروں کی بولی بھی سمجھتے ہیں۔ حضرتِ سُلیمان صِرْف چڑیوں چیونٹیوں(یعنی مخصوص جانوروں) کی بولی سمجھتے تھے، حضور شجر و حجر خشک و تر ساری مخلوق کی بولی جانتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ حضور حاجت روا مشکل کشا ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے جانور بھی مانتے ہیں جو انسان مسلمان ہو کر حضور کو حاجت روا، مشکل کشا نہ مانے وہ جانوروں سے بدتر ہے۔ تیسرے یہ کہ حضور کی کچہری میں جانور بھی فریادی ہوتے تھے۔ ؎

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد، ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد

اسی در پر شترانِ ناشاد، گلۂ رنج و عَنا کرتے ہیں (حدائق بخشش،ص113)

لہذا اپنا ہر دکھ درد حضور سے کہو فریاد کرو۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص239)

چڑیاکی فریاد حضرتِ سیّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ہم نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے، ہم نے انہیں پکڑلیا، چڑیا آئی اور پھڑپھڑانے لگی۔ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تودریافت فرمایا: کس نے اس کے بچّوں کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچّے اسے لوٹادو۔ (ابوداؤد،ج 3،ص75، حدیث:2675)

ہِرنی کی فریاد حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایک اعرابی کے خیمے کے پاس سے گزراتو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔ بے کسوں کے فریادرس صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نظر پڑتے ہی ہرنی نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !یہ خیمے والا اعرابی (دیہاتی) مجھے جنگل سے پکڑ کر لایا ہے، جبکہ میرے دو بچّے جنگل میں ہیں، میرے تھنوں میں دودھ گاڑھا ہورہا ہے یہ نہ تو مجھے ذبح کرتا ہے کہ میں اس تکلیف سے راحت پاجاؤں اور نہ مجھے چھوڑتا ہے کہ اپنے بچوں کو دودھ پلا آؤں۔ ہرنی کی فریاد سن کر مظلوموں کے فریاد رس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر میں تجھے چھوڑدوں تو کیا تو اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجائے گی؟ عرض کی: جی ہاں! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ضرور واپس آؤں گی، اگر میں نہ آؤں تو اللہ پاک مجھے ناجائز ٹیکس وصول کرنے والے کا سا عذاب دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے چھوڑا تو وہ بڑی تیزی وبے قراری سے جنگل کی طرف چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد واپس آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے خیمے کے ساتھ باند ھ دیا۔ اتنے میں وہ اعرابی بھی پانی کا مشکیزہ اٹھائے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:یہ ہرنی ہمیں بیچ دو! عرض کی: یارسول اللہ! یہ بطور ہدیہ پیش خدمت ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے آزاد فرمادیا۔ حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی قسم! میں نے اس ہرنی کو دیکھا کہ وہ جنگل میں کلمہ پڑھتی ہوئی جارہی تھی ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،6/ 35)

شان رحمت جوش پر آئی چھڑایا قید سے

بے کلی کے ساتھ جب ہرنی پُکاری یارسول (قبالہءبخشش،ص90)

حیوانات کا ایمان اور اعلان رسالت

ایمان کا اعلان کرنے والی گوہ حضرت عبد ا بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلۂ بنی سلیم کا ایک اعرابی نبی کریم صلی ا علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک میری یہ گوہ آپ پر ایمان نہ لائے۔ یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔ آپ صلی ا علیہ والہ وسلم نے گوہ کو پکارا تو اس نے ”لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ“ اتنی بلند آواز سے کہا کہ تمام حاضِرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلی ا علیہ والہ وسلم نے پو چھا: تیرا معبود کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا: میرا معبود وہ ہے کہ جس کا عرش آسمان میں ہے اور اسی کی بادشاہی زمین میں ہے، اس کی رحمت جنت میں ہے اور اس کا عذاب جہنم میں ہے۔ پھر آپ صلی ا علیہ والہ وسلم نے پوچھا: اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بلند آواز سے کہا:

اَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ،

آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ،

جس نے آپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہو گیا

وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ

اور جس نے آپ کو جھٹلایا وہ نامراد ہو گیا۔

یہ منظر دیکھ کر اعرابی(دیہاتی) اس قدر متأثر ہو ا کہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ

یا رسول اﷲ! (صلی ا علیہ والہ وسلم) میں جس وقت آپ کے پاس آیا تھا تو میری نظر میں روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اس وقت میرا یہ حال ہے کہ آپ میرے نزدیک میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔

آپ
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

خدا کے لئے حمد ہے جس نے تجھ کو ایسے دین کی ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا۔ پھر آپ صلی ا علیہ والہ وسلم نے اس کو سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کی تعلیم دی۔ اعرابی قراٰن کی ان دو سورتوں کو سن کر کہنے لگا کہ میں نے بڑے بڑے فصیح و بلیغ، طویل و مختصر ہر قسم کے کلاموں کو سنا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے آج تک اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا۔

(معجم اوسط،ج4،ص283،حدیث:5996 مختصراً)

طائف کا سعادت مند درخت

شفاء شریف میں آیا ہے کہ غزوۂ طائف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم غنودگی کی حالت میں تھوڑا سا چلے۔ سامنے ایک بیری کا درخت تھا۔ قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سراقدس اس درخت سے ٹکرا جاتا۔ اچانک وہ پھٹ کر دو ٹکڑے ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راستہ دے دیا۔ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے فوزک کے حوالے سے لکھا ہے، وہ سعادت مند درخت (1083ء ۔1145ھ)آج بھی دو تنوں پر اسی جگہ موجود ہے۔ اس کے شرف صحابیت کی وجہ سے وہ جگہ لوگوں میں مشہور ہے اور قابل تعظیم بھی۔(شفا شریف، ج اوّل، باب چہارم)

صحابی درخت اور اس کی حقیقت

ایسا ہی ایک خوش بخت اور سعادت مند درخت اُردن میں موجود ہے۔ اسے بھی تعظیم رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طفیل بقائے دوام حاصل ہو گئی۔ یہ درخت حجاز سے دمشق جانے والی قدیم تجارتی شاہراہ پر استادہ خیرالقرون کی یادیں تازہ کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ پوری شاہراہ پر اس درخت کے علاوہ ایک پودا بھی پنپ نہیں سکا۔ لیکن اس صحابی درخت کو آب و ہوا کی شدت اور موسموں کے تغیر وتبدل سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اس درخت کا ذکر ترمذی شریف میں ابواب المناقب میں موجود ہے۔

معجزات نبوی کے مزید روشن واقعات

کھجور کے خوشے کا اتر آنا
حضرت عبدا بن عباس رضی ا تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے یہ کیونکر یقین ہو کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اس کھجورکے درخت پر جو خوشہ لٹک رہا ہے اگر میں اس کو اپنے پاس بلاؤں اور وہ میرے پاس آ جائے تو کیا تم میری نبوت پر ایمان لاؤ گے؟ اس نے کہا کہ ہاں بے شک میں آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر ضرور آپ کوخدا کا رسول مان لوں گا۔ آپ نے کھجور کے اس خوشہ کو بلایا تو وہ فوراً ہی چل کر درخت سے اترا اور آپ کے پاس آ گیا پھر آپ نے حکم دیا تو وہ واپس جا کر درخت میں اپنی جگہ پر پیوست ہوگیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر وہ اعرابی فوراً ہی دامن اسلام میں آگیا۔(ترمذی، حدیث:3648، 5/360)

چھڑی روشن ہوگئی امام احمد نے حضرت ابوسعید خدری رضی ا تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی ا تعالیٰ عنہ نے حضور صلی ا تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی رات سخت اندھیری تھی اور آسمان پر گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ بوقت روانگی حضور صلی ا تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انہیں درخت کی ایک شاخ عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم بلاخوف و خطر اپنے گھر جاؤ یہ شاخ تمہارے ہاتھ میں ایسی روشن ہو جائے گی کہ دس آدمی تمہارے آگے اور دس آدمی تمہارے پیچھے اس کی روشنی میں چل سکیں اور جب تم گھر پہنچو گے تو ایک کالی چیز کو دیکھو گے اس کو مار کر گھر سے نکال دینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہواکہ جوں ہی حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشانۂ نبوت سے نکلے وہ شاخ روشن ہوگئی اور وہ اسی کی روشنی میں چل کر اپنے گھر پہنچ گئے اور دیکھا کہ وہاں ایک کالی چیز موجود ہے آپ نے فرمان نبوت کے مطابق اس کو مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔(المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث:11624،4/131)

لکڑی تلوار بن گئی حضرت عبدا بن جحش رضی ا تعالیٰ عنہ کی تلوار جنگِ اُحد کے دن ٹوٹ گئی تھی تو ان کو بھی رسول ا صلی ا تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی شاخ دے کر ارشاد فرمایا کہ '' تم اس سے لڑو'' وہ حضرت عبدا بن جحش رضی ا تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں آتے ہی ایک بَرّاق تلوار بن گئی۔ حضرت عبدا بن جحش رضی ا تعالیٰ عنہ کی اس تلوار کا نام ''عرجون''تھا یہ خلفاء بنو العباس کے دور حکومت تک باقی رہی یہاں تک کہ خلیفہ معتصم با کے ایک امیر نے اس تلوار کو بائیس دینار میں خریدا اور حضرت عکاشہ رضی ا تعالیٰ عنہ کی تلوار کا نام''عون'' تھا،یہ دونوں تلواریں حضور صلی ا تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات اور آپ کے تصرفات کی یادگار تھیں۔ (مدارج النبوت ،2/123ملخصاً)

درختوں اور پتھروں نے نبی ہونے کی گواہی دی

پتھر کا سلام کرنا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا” مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔

نبوت پر درخت کی گواہی ایک مرتبہ رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک سفر میں تھے، اس دوران ایک اعرابی بارگاہِ مصطفےٰ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، اس اعرابی نے پوچھا: کیاآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت پر کوئی گواہ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ہاں، یہ درخت جو میدان کے کنارے پر ہے میری نبوّت کی گواہی دے گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس درخت کو بلایا تو حیرت انگیز طور پر وہ درخت فوراً زمین چیرتا ہوا اپنی جگہ سے چل کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوگیا اور اس نے بآواز بلند تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کی گواہی دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو اشارہ فرمایا تو وہ درخت واپس اپنی جگہ چلا گیا۔ اعرابی یہ معجزہ دیکھتے ہی مسلمان ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقدس ہاتھ اور مبارک پاؤں کو والہانہ عَقیدت سے چومنے کی سعادت بھی حاصل کی۔(زرقانی علیٰ المواہب، ج6، ص517ملخصاً)

پتھرکا تسبیح کرتے ہوئے تیرنا اور گواہی دینا ایمان لانے سے قبل حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ نے پانی کے کنارے کھڑے ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ سچے ہیں تو دور پڑا پتھر پانی میں ڈوبے بغیر تسبیح کرتا ہوا آپ کے پاس آئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اشارہ فرمایا تو وہ پتھر ڈوبے بغیر بارگاہِ مصطفےٰ میں حاضر ہوا اور رسالت کی گواہی دی، نبیِّ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا: اِتنا کافی ہے؟ حضرت سیّدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ پتھر واپس اپنی جگہ لوٹ جائے۔ چنانچہ وہ پتھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم پاکر واپس لوٹ گیا۔(تفسیر کبیر،ج12،ص314)

مردہ بیٹی کا زندہ ہونا ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے یہ شرط رکھی کہ میری بیٹی زندہ ہوجائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قبر پر تشریف لے گئے اور اس کی مردہ بیٹی زندہ کردی۔(زرقانی علی المواھب،ج7،ص61)

پتھروں اور پہاڑوں کا درود وسلام

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں” ہم مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آتا تو وہ کہتا” السلام علیک یا رسول اللہ “ یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔“ پتھروں اور پہاڑوں کی جانب سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سلام کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے کہ ”حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں” میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا”میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتےتو وہ کہتا” السلام علیک یا رسول اللہ“یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو‘ اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔“

انسانوں کے لئے احترام رسالت کا سبق

علماء کرام نے فرمایا کہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر انور کے پاس آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے جیسا کہ حیاتِ ظاہری میں مکروہ تھا۔ کیونکہ ان کا احترام حیات ظاہری میں بھی ہے ، اور قبرِ انور میں بھی ۔ اللّٰه تعالیٰ کا اُن پر ہمیشہ درود و سلام ہو۔(تفسیر ابن کثیر : 7/368)

یاد رہے! درختوں اور پتھروں کا سلام کرنا، پتھر کا تسبیح کرتے ہوئے تیرنا، درخت کا اپنی جگہ سے چل کر نبوت کی گواہی دینا، یہ سب روشن معجزات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری اور برحق رسول ہیں۔ بے جان چیزیں بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظمت و شان کے سامنے جھک جاتی ہیں، اور یہ معجزات قیامت تک ایمان والوں کے لیے باعثِ ہدایت اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔

Tags

No tags

Comments (0)

Login Required
Please login to add a comment and join the discussion.

No comments yet

Be the first to share your thoughts on this article!