سب سے اعلٰی نبی اور دیگر انبیاء کے معجزات میں فرق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات وہ عظیم نشانیاں ہیں جن میں تمام انبیائے کرام کے معجزات کی جھلک اور کمال جمع ہے۔ حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے معجزات اپنی اپنی امت تک محدود تھے، جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دائمی، جامع اور ہر دور کی رہنمائی کرنے والے معجزات عطا ہوئے۔ قرآن کریم، معراج، اخبارِ غیب اور بے شمار کرامات آپ کی نبوت کی روشن دلیل بن کر ایمان کو تازگی اور یقین کو ظلمت سے روشنی کی طرف لاتی ہیں۔

November 24, 2025
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے سردار ہیں ، اور ہر نبی کا معجزہ اس کی نبوّت کی دلیل ہوا کرتا ہے، معجزہ ہی سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق کی دلیل ہوتا ہے۔

حضرت ابراہیم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ

پہلا فرق : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہر نبی سے افضل معجزہ ملا ، مثلاً معراجِ ابراہیم اور معراجِ مصطفیٰ کا فرق دیکھیں۔ وہاں سیّدُنا ابراہیم علیہ السلام کو زمین پر کھڑا کرکے آسمانوں و زمین کی نشانیاں دکھائیں ، فرمایا :

وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ

اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں۔ (الانعام : 75)

اور یہاں افضل ترین فرشتہ بھیج کر ، اپنے حبیب علیہ السلام کو نیند سے جگا کر ، آسمانوں سے اوپر بلا کر معراج کا شرف عطا کیا :

سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا ۔

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرائی۔ (بنی اسرائیل:01) ۔

حضرت موسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ

یونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزۂ کلام عطا فرمایا :

وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)

اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔ (النسآء : 164)

لیکن مطالبۂ دیدار پر منع کر دیا:

رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَؕ-قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ

اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تا کہ میں تیرا دیدار کر لوں۔ فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ (پ9 ، الاعراف : 143)

لیکن اپنے حبیب عَلَیْہِ السَّلَام کو بغیر عرض و درخواست کے خود اپنے پاس بلا کر دیدار کا شرف عطا کیا:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰)

پھر وہ جلوہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیاپھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔ (النجم : 8تا10)

اور فرمایا :

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷)
آنکھ نہ کسی طرف پھری اور نہ حد سے بڑھی۔ (النجم : 17)

معجزات کی کثرت اور انواع

دوسرا فرق : حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سب سے زیادہ معجزات ملے جیسا کہ کتبِ احادیث و فضائل مثلاً دلائلُ النبوَّۃ ، خصائصِ کبریٰ اور حُجَّۃُ اللہِ عَلَی الْعَالَمِین کےمطالعے سے ظاہر ہے نیز اولیاء کی کرامات بھی اپنے نبی کا معجزہ ہی ہوتی ہیں کہ انہی کی پیروی کی برکت سے یہ مقام ملتا ہے اور امتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کے اولیاءِ کرام کی کرامات شمار سے باہر ہیں اور یہ سب کرامات حضور پُرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزات ہیں۔

بے شمار معجزات

تیسرا فرق : نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کئی معجزات ایسے ہیں کہ ایک معجزے میں بہت سے معجزے ہیں جیسے قرآن اور معراج کہ یہ دو معجزے ہیں لیکن ان دونوں کے ضمن میں بے شمار معجزات موجود ہیں۔

جیسا دور ویسا ہی معجزہ

چوتھا فرق : ہر نبی کے زمانے میں جو چیز رائج تھی اس نبی کو اس سے ملتا جلتا معجزہ دیا گیا

جیسے زمانۂ موسیٰ میں جادو کا زور تھا ، زمانۂ سلیمان میں جنات اور جادو کی کثرت تھی ،

زمانۂ عیسیٰ میں طب ترقی پر تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی لوگوں کو اسی طرح کی چیزوں میں عاجز کر دینے والے معجزات دئیے۔

اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم قیامت تک واجب الاتباع نبی ہیں تو فصاحت ، جادو ، طب ، طاقت ، سائنس ، سیٹلائٹ سب قسموں کے معجزات دئیے مثلاً فصاحت و بلاغت کے مقابلے میں فصیح و بلیغ قرآن دیا جس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بنانا بھی ممکن نہیں۔

جادوگر کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا جو کوئی جادوگر نہیں کر سکتا۔

طب نے ترقی کرنی تھی تو آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ سے چھو کر اور لعابِ دہن سے بیماروں کو شِفایاب کر دیا۔

سائنس کا خَلائی سفر کا زمانہ آنا تھا تو مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معراج کا معجزہ دیا گیا۔

سیٹلائٹ کا زمانہ آنا تھا تو ساری کائنات کو آپ کے سامنے کردیا ،

چنانچہ فرمایا : ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لئے دنیا بلند کر دی تو میں اس کی طرف اور جو اس میں قیامت تک ہونے والا ہے اس کی طرف ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنا یہ ہاتھ دیکھتا ہوں۔ (معجم كبير ، 13 / 318 ، حديث : 14112)

اورفرمایا : ترجمہ : تو میرے لئے ہر شے خوب ظاہر ہوگئی اور میں نے جان لیا۔ (ترمذی ، 5 / 221 ، حديث : 3235)

حسنِ یُوسُف دمِ عیسیٰ یدِبیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!آپ کے پاس یوسف علیہ السلام کا حسن ، عیسیٰ علیہ السلام کی شفا بخشی کی طاقت اور موسیٰ ع علیہ السلام کے چمکتے ہاتھ والا معجزہ ہے۔ جو خوبیاں دیگر تمام انبیاء علیہما السلام میں تھیں وہ سب آپ کی ذات میں موجود ہیں۔

جمیع اوصاف کے جامع نبی

تمام انبیاء علَیہم الصلوۃ والسلام کے جملہ کمالات ،تمام محاسن ،جمیع اوصاف اور سارے کے سارے معجزات آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات میں موجود ہیں۔ تمام انبیائے کرام پر آپ کی افضیلت کو قرآن پاک میں بھی بیان کیا گیا۔

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ(البقرۃ:253)

ترجمۂ کنزالایمان:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پردرجوں بلند کیا۔

خصائص وکمالات میں سب سے اعلٰی نبی

تفسیر صراط الجنان جلد1 صفحہ 380 پراس آیتِ کریمہ کے تحت ہے:

یاد رہے کہ نبی ہونے میں تو تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام برابر ہیں اور قرآن میں جہاں یہ آتا ہے کہ ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرتے اس سے یہی مراد ہوتا ہے کہ اصلِ نبوت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں البتہ ان کے مَراتِب جداگانہ ہیں، خصائص و کمالات میں فرق ہے، ان کے درجات مختلف ہیں ، بعض بعض سے اعلیٰ ہیں اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے اعلیٰ ہیں ، یہی اس آیت کا مضمون ہے اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے۔(خازن، 1 / 193، مدارک، ص130، ملتقطاً)

یہاں آیت میں بعض کو بعض سے افضل فرمایا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ یوں نہیں کہنا چاہیے کہ بعض بعض سے ادنیٰ ہیں کہ یہ ادب کے مطابق نہیں۔

انبیاء کرام کے فضائل بیان کرنے میں احتیاط

جب انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے باہمی فضائل بیان کئے جائیں تو صرف وہ فضائل بیان کریں جو قرآن مجید، احادیثِ مبارکہ یا اولیاء و محَقّق علماء سے ثابت ہوں ، اپنی طرف سے گھڑ کر کوئی فضیلت بیان نہ کی جائے اور ان فضائل کو بھی اس طرح بیان نہ کیا جائے جس سے معاذاللہ کسی نبی علیہ السلام کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو۔

تین انبیاء کرام کے خصوصی فضائل

اس آیت میں جملہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام میں سے بطور ِ خاص تین انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا ذکر فرمایا گیا۔ ایک حضرتِ موسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا جبکہ یہی شرف سیدُ الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معراج میں حاصل ہوا۔

دوسرے نبی جن کااس آیت میں تذکرہ ہے وہ حضرتِ عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام ہیں جنہیں روشن نشانیاں عطا ہوئیں ، جیسے مردے کو زندہ کرنا، بیماروں کو تندرست کرنا، مٹی سے پرندہ بنانا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ، نیز روحُ القُدُس یعنی حضرتِ جبریل علیہ السلام کے ذریعے آپ علیہم الصلاۃ والسلام کی تائید کی گئی جو ہمیشہ آ پ کے ساتھ رہتے تھے۔

تمام نبیوں سے افضل نبی

تیسری وہ ہستی ہے جن کے بارے میں فرمایا کہ کسی کو ہم نے درجوں بلندی عطا فرمائی اور وہ ہمارے آقا و مولا، ملجاء و ماوٰی، حضور پر نور، سیدُ الانبیاء ،محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں کہ آپ کو کثیر درجات کے ساتھ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پرفضیلت عطا فرمائی، اس عقیدے پر تمام امت کا اجماع ہے اور یہ عقیدہ بکثرت احادیث سے ثابت ہے۔

اس آیت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس رفعت مرتبہ کا بیان فرمایا گیا اور نامِ مبارک کی تصریح نہ کی گئی اس سے بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بلندیِ شان کا اظہار مقصود ہے کہ ذاتِ والا کی یہ شان ہے کہ جب تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر فضیلت کا بیان کیا جائے تو سوائے ذات اقدس کے یہ وصف کسی پر صادق ہی نہ آئے اور کسی اور طرف گمان ہی نہ جائے۔

حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وہ خصائص وکمالات جن میں آپ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر فائق و افضل ہیں اور ان میں آپ کا کوئی شریک نہیں ، بے شمار ہیں کیونکہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ درجوں بلند کیا اور ان درجوں کا کوئی شمار قرآنِ کریم میں ذکر نہیں فرمایا گیا تو اب ان درجوں کی کون حد لگاسکتا ہے ؟ان بے شمار خصائص میں سے بعض کا اجمالی اور مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کی رسالت عامہ ہے یعنی تمام کائنات آپ کی امت ہے،

تمام کائنات کے آخری نبی

جیسا کہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا (سبا: 28)

ترجمۂ کنزالعرفان:اور اے محبوب! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

دوسری آیت میں ارشادفرمایا:

لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا(فرقان: 1)

ترجمۂ کنزالعرفان: تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔

مسلم شریف کی حدیث میں ارشاد ہوا ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً ‘‘ میں (اللہ تعالٰی کی ) تمام مخلوق کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہوں۔(مسلم، ص266، الحدیث: ۵(۵۲۳))

نیز آپ پر نبوت ختم کی گئی، قرآنِ پاک میں آپ کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ فرمایا گیا۔(احزاب:40)

حدیث شریف میں ارشاد ہوا ’’خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ‘‘ مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔ (مسلم، ص266، حدیث: 5(523))

تمام نبیوں کے سردار

نیز آپ کو تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے زیادہ معجزات عطا فرمائے گئے، آپ کی امت کو تمام امتوں پر افضل کیا گیا، حوضِ کوثر، مقامِ محمود، شفاعتِ کُبریٰ آپ کوعطا ہوئی، شبِ معراج خاص قرب ِ الہٰی آپ کو ملا، علمی و عملی کمالات میں آپ کو سب سے اعلیٰ کیا اور اس کے علاوہ بے انتہا خصائص آپ کو عطا ہوئے۔ (مدارک، ص130-131، جمل، 1 /310 ، خازن، 1 / 193-194، بیضاوی، 1 /549-550، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر حضور پرنورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی افضلیت اپنی کتاب ’’تَجَلِّیُ الْیَقِین بِاَنَّ نَبِیَّنَاسیِّدُ الْمُرْسَلِین( یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام رسولوں کے سردار ہیں )‘‘ میں دس آیتوں اور ایک سو حدیثوں سے ثابت کی ہے۔

سب رسولوں سے اعلٰی ہمارا نبی

یہ فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود ہے، اس کا مطالعہ فرمائیں آپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں

خَلق سے اولیاء اولیاء سے رُسُل

اور رسولوں سے اعلی ہمارا نبی

ملک کَونَین میں انبیاء تاجدار

تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

سب سے اَولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

سب سے بالا و والا ہمارا نبی

Tags

No tags

Comments (0)

Login Required
Please login to add a comment and join the discussion.

No comments yet

Be the first to share your thoughts on this article!