نزولِ وحی سے پہلے نبی کو نبوت کا علم
حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی نازل ہونے سے پہلے ہی اپنی نبوت کا علم تھا۔ احادیث اور تاریخی دلائل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچپن اور جوانی میں ہی اپنی نبوت کی خبر رکھتے تھے۔
بحیرا راہب اور نبوت کی پیشن گوئی
بحیرا راہب، جو اناجیل اور علاماتِ نبوت کے ماہر تھے، نے بچپن میں حضور کی نبوت کی پیش گوئی کی۔ نسطورا راہب نے جوانی میں اس کی تصدیق کی۔
اعلان نبوت سے پہلے مکہ کے پتھر کا سلام پیش کرنا
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں مکہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری بِعثَت (اعلانِ نبوت) سے پہلے مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا اور میں اب بھی اسے پہچانتا ہوں ۔( مسلم، ص1249، حدیث: 2(2277))
نبوت کب واجب ہوئی؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسول الله! صلی اللہ علیہ والہ وسلم، آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ارشاد فرمایا: ’’جس وقت حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔( ترمذی، 5 / 351 ، الحدیث: 3629)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کا سفر
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک بارہ برس تھی جب جناب ابوطالب نے رؤسائے قریش کے ہمراہ تجارت کی غرض سے سفر شام کا عزم کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا گیا۔ مورخین کے نزدیک یہ سفر ۵۸۶ء میں ہوا۔
جب یہ قافلہ بیت المقدس کے شمال میں نزد دمشق واقع مقام بُصریٰ پہنچا، تو ایک گھنے درخت کے قریب جناب ابوطالب سواری سے نیچے اترے۔ باقی اہل قافلہ نے بھی آرام کی غرض سے سواریوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں یہ علاقہ رومی سلطنت کے زیر انتظام تھا۔ وہاں ایک گرجا میں ایک راہب رہتا تھا۔
بحیرا راہب کی تحقیق اور انتظار
راہب کا لقب بحیرا (Bahira) یعنی پارسا او ر نام جرجیس (Georges) یا سرجیس تھا۔ بحیرا اناجیل اربعہ کا بہت بڑا عالم اور کتاب مقدس کا درس دیا کرتا تھا۔ اسی باعث علاقے میں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا۔ اس کے گرد تحصیل علم کرنے والے عیسائی علما کا ہجوم رہتا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بھی قبل از اسلام اسی سے علم حاصل کیا تھا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ، جلد دوم میں لکھا ہے کہ:
بحیرا کے اس صومعہ میں مقیم ہونے کی وجہ اسی کی یہ تحقیق تھی کہ اُدھر سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گزر ہو گا۔ چنانچہ وہ حجاز سے آنے والے ہر قافلے کو اپنی کھڑکی سے دیکھتا رہتا۔ مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کے لیے وہ سراپا انتظار تھا۔
بچپن ہی میں خبر نبوت
بحیرا بلا کا تارک الدنیا اور گوشہ نشین بزرگ تھا۔ کبھی گرجا سے باہر آیا تھا اور نہ ہی کبھی قافلے والوں سے ملاقات کرتا۔ لیکن اس مرتبہ وہ خلاف دستور قافلے پر نظریں جمائے گرجا کے دروازے پر کھڑا تھا۔ جب قافلے نے درخت کے نیچے پڑاؤ ڈالا تو وہ اہل مکہ کے قریب پہنچا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس تھام کر لوگوں سے مخاطب ہو کر بآوازِ بلند کہنے لگا:
یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔ یہ رب العالمین کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔ اللہ انھیں رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنا کر معبوث فرمائے گا۔ (ترمذی)
اہل قافلہ بحیرا کا یہ عمل دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے۔ روسائے قریش میں سے ایک نے پوچھا: ’’اے بزرگِ محترم! آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟‘‘
درختوں اور پتھروں نے سجدہ کیا
اس نے جواب دیا: ’’جب سبھی لوگ گھاٹی سے اتر کر آ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ تمام درخت اور پتھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مہر نبوت سے بھی پہچان سکتا ہوں۔‘‘
درخت کا سایہ جھگ گیا
بحیرا پھر صومعہ میں واپس چلا گیا تاکہ اہل قافلہ کے لیے ضیافت کا اہتمام کر سکے۔ جب وہ کھانا لے کر اہل قافلہ کے پاس پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹ چرانے تشریف لے گئے تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بلایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم واپس تشریف لائے تو ایک بدلی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر اقدس پر سایہ کناں تھی۔ جب گرجا کے قریب پہنچے تو اہل قافلہ درخت کے سائے میں بیٹھے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ازراہِ ادب سب سے پیچھے بیٹھنا گوارا کیا، جہاں دھوپ تھی اور درخت کا سایہ ختم ہو جاتا تھا۔ فوراً درخت نے جھک کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر اقدس پر سایہ کر دیا۔ البدایہ والنہایہ اور سیرت ابن ہشام کے مطابق درخت کی شاخیں بے تابانہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سراقدس پر جھک گئیں۔ یہ دیکھ کر راہب بے ساختہ پکار اٹھا ’’دیکھو درخت کا سایہ ان کی طرف جھک گیا ہے۔‘‘
علامات نبوت کی شناخت
امام بیہقی نے اس واقعہ کو قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق بحیرا نے اہل قریش کو صومعہ کے اندر کھانے پر مدعو کیا۔ تمام اہل قافلہ چلے گئے جب کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نوعمری کے باعث اسی درخت کے نیچے تشریف فرما رہے۔ جب بحیرا کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم قافلے میں نظر نہ آئے، تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ چنانچہ ایک قریشی یہ کہتے ہوئے اٹھا کہ لات و عزیٰ کی قسم! ہمارے لیے لائق شرم ہے کہ ہم تو کھانا کھا لیں اور عبداللہ بن عبدالمطلب کا فرزند رہ جائے۔ وہ پھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آغوش میں اٹھا لایا۔
ابونعیم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گرجا میں داخل ہوئے تو وہ نُورِ نبوت سے چمک اٹھا۔ یہ دیکھ کر بحیرا کہنے لگا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، جنھیں اللہ عرب میں مبعوث فرمائے گا۔‘‘ بحیرا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بغور دیکھتا اور اپنی کتب میں مذکور علاماتِ نبوت کی شناخت کرتا رہا۔ جب قافلے والے کھانے سے فارغ ہو کر چلے گئے، تو وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور چند سوال و جواب کیے۔ بحیرا نے کہا: ’’بچے! میں تمھیں لات و عزیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے میرے سوالوں کے جواب دو۔‘‘ اس نے لات و عزیٰ کا واسطہ اس لیے دیا کیونکہ وہ اہل قافلہ کو ان کی قسمیں کھاتے ہوئے سن چکا تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’آپ لات و عزیٰ کا نام لے کر مجھ سے کچھ نہ پوچھیں کیونکہ مجھے ان سے جتنی نفرت ہے اتنی کسی اور سے نہیں۔‘‘
بحیرا نے اللہ کا واسطہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ’’اب جو مرضی ہے پوچھو۔‘‘
بحیرا نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیند پوری نہیں ہوتی؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’میری آنکھیں سو جاتی ہیں مگر دل نہیں سوتا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احوال اور دیگر امور کے بارے میں استفسار کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے آگاہ فرمایا۔ تمام جوابات بحیرا کی معلومات کے مطابق تھے۔
پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پشت مبارک کی طرف دیکھا تو شانوں کے درمیان سیب سے مشابہ مہرِ نبوت دکھائی دی۔ تمام علامات کی تصدیق کرنے کے بعد بحیرا نے جناب ابوطالب کے پاس آ کر پوچھا: ’’اس بچے سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘
انھوں نے جواب دیا: ’’میرا بیٹا ہے۔‘‘
بحیرا نے کہا: ’’ یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا۔ میرے علم کے مطابق بچے کے والد کو زندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
بحیرا نے کہا: ’’آپ کی بات بالکل درست ہے۔ آپ کے بھتیجے کی بڑی شان ہو گی۔ اس کا چہرہ، نبی کا چہرہ آنکھ نبی کی آنکھ ہے۔‘‘
خطرۂ رومی اور حفاظت
اب بحیرا نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر بآواز بلند قسمیں کھا کھا کر لوگوں سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ روم لے کر نہ جاؤ۔ رومی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے پہچان کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جان کے درپے ہوں گے۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ دور ایک غبار اڑتا ہوا نظر آیا۔ غور سے دیکھا تو روم کی جانب سے سات آدمی چلے آرہے تھے۔ بحیرا نے ان کا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا: ’’ہم اس لیے آئے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس مہینے سفرپر نکلنے والے ہیں۔ ہمارے آدمی ہر راستے پر پھیل گئے ہیں۔ ہمیں خبر ملی کہ وہ اس راستے سے آرہے ہیں لہٰذا ہم نے ادھر کا رخ کر لیا۔‘‘
بحیرا نے ان سے کہا: ’’یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ جس معاملے کو تکمیل تک پہنچانا چاہے کیا کوئی آدمی اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟‘‘
انھوں نے انکار میں جواب دیا تو اس نے انھیں سمجھایا کہ تمھیں چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی بن جاؤ۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔ جناب ابو طالب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ پلٹ آئے یا کسی کے ہمراہ واپس بھیج دیا
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ان تمام اَحادیث اور بحیرا راہب کی تحقیقات میں اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی نازل ہونے سے پہلے اپنے نبی ہونے کا علم تھا،لہٰذا یہ نظرِیّہ ہر گز درست نہیں کہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی نازل ہونے کے بعد اپنے نبی ہونے کا علم ہو اتھا۔
نرم دلی اور شفقت نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نبیّ ِرحمت،شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالَم کے لئے رحمت اور نرم دل بنا کر بھیجے گئے جیساکہ
قراٰنِ پاک میں ارشادِ باری تعالٰی ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ
ترجمۂ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔(پ4،اٰل عمرٰن:159)
سرکار مدینہ،راحت قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی کا مطالَعہ کیا جائےتو اس میں جابجا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفقت ،نرمی اور مہربانی کا بے مثال انداز نظر آتا ہےجو نہ صرف جن و انس بلکہ چرند و پرِند، شجر و حجرسب کے لئے عام تھی، کچھ جھلک ملاحظہ فرمائیے:
ستون حنانہ سے کیا مراد ہے؟ نیز اس کا واقعہ بھی ارشاد فرما دیجئے۔
ستونِ حَنَّانہ کھجور کا وہ خشک تَنا ہے جس سے مسجد ِنبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلٰوۃ والسَّلام میں سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگاکر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب لکڑی کا منبر اطہر بنایا گیا اور حضور تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منبر شریف کو قدم بوسی سے مشرف فرما کر خطبہ ارشاد فرمایا: تو کھجور کے تنے سے رونے کی آواز آنے لگی، وہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فِراق (یعنی جدائی) میں رو رہا تھا تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفقت فرماتے ہوئے مبارک منبر سے اترے اور اس کو سینے سے لگا لیا تو وہ سسکیاں بھرنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ خاموش ہوگیا۔
اسی رونے کی وجہ سے اُس تَنے کا نام ”حَنَّانہ“ پڑ گیا۔ سرکار نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: اگر میں اس کو خاموش نہ کرواتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔ پھر مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے فرمایا: ”اگر تو چاہے تو تجھے اسی جگہ لگادوں جہاں تو پہلے تھا تاکہ تو پہلے کی طرح(تروتازہ) ہوجائے اور اگر تُو چاہے تو تجھے جنت میں لگادوں تاکہ جنتی تیرا پھل کھاتے رہیں! اس نے جنّت کو اختیار کیا تو سرکارمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر اسے منبر کے نیچے دفنا دیا گیا۔
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی جب یہ واقعہ بیان فرماتے تو روتے اور ارشاد فرماتے:
اے اللہ پاک کے بندو! جب ایک درخت کا بے جان تَنا فِراقِ مصطفےٰ میں رو سکتا ہے تو تمہیں فراقِ رسول میں رونے کا زیادہ حق ہے۔
(وفاء الوفاء،ج1،ص388تا 390، دلائل النبوۃ للبیہقی،ج 2،ص556 تا 561 ماخوذاً)
آج بھی مسجد ِ نبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلٰوۃ والسَّلام میں اس جگہ پر جہاں یہ ستونِ حنانہ تھا، پلر(Pillar) بنا ہوا ہے جس پر اُسْطُوَانَۃُ الْحَنَّانَہ لکھا ہوا ہے، عاشقانِ رسول اس مقام پر نوافل وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ (بخاری، ج2،ص18، حدیث:2095)
واضح رہے کہ گریۂ ستون کا یہ معجزہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں گیارہ صحابیوں سے منقول ہے جن کے نام یہ ہیں:
(۱)جابر بن عبد اﷲ(۲)اُبی بن کعب(۳)انس بن مالک(۴)عبد اﷲ بن عمر(۵) عبد اﷲ بن عباس(۶) سہل بن سعد(۷) ابو سعید خدری(۸) بریدہ (۹) ام سلمہ (۱۰) مطلب بن ابی وداعہ (۱۱) عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، پھر دور صحابہ کے بعد بھی ہر زمانے میں راویوں کی ایک جماعت کثیرہ اس حدیث کو روایت کرتی رہی یہاں تک کہ علامہ قاضی عیاض اور علامہ تاج الدین سبکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہمانے فرمایاکہ گریۂ ستون کی حدیث''خبرمتواتر''ہے۔( الشفاء ، 1/ 303-304)
اس ستون کو دفن کرنے کے بارے میں علامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ خشک لکڑی کا ایک ستون تھا مگر یہ درجات و مراتب میں ایک مردمومن کے مثل قرار دیا گیا کیونکہ یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق و محبت میں رویا تھا اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کا برتاؤ یہ ایمان والوں ہی کا خاصہ ہے۔
دن میں تارے نظر آنے لگے
حضرت سیّدناامیر ِمعاویہ رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس منبر کو تَبَرُّ کاً ملکِ شام لے جائیں چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے جب اس منبرکو اس کی جگہ سے ہٹایا تو اچانک سارے شہر میں ایسا اندھیرا چھا گیا کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت سیّدناامیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ارادہ ترک فرما دیا۔( مدارج النبوۃ،۲ / ۳۲۶ ملخصاً)
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:
میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ اسے طویل کرنے کا ہوتا ہے لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتاہوں تو میں اس کے بارے میں اس کی ماں کی فکر مندی کے خیال سے نماز کو مختصر کردیتا ہوں۔(مسلم، ص 194، حدیث: 1056)
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے دیکھنے اور سننے بلکہ ان کی تمام قوتوں کو عام انسانوں کے قوائے جسمانیہ اور بدنی طاقتوں پر قیاس نہیں کرسکتے۔ ہم عام انسان چیزوں کو اپنے حواس ظاہری یعنی آنکھ ،کان وغیرہ سے دیکھتے سنتے ہیں اور حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی باطنی قوتوں سے دیکھتے سنتے ہیں ۔ اللہ اکبر! کہاں ہمارے ظاہری حواس اور کہاں انبیاء علیہم السلام کی باطنی قوتیں !’’چہ نسبت خاک را با عالم ِپاک‘‘ عارف رومی نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب کہاہے ؎
فلسفی کہ منکر حنانہ است از حواس انبیاء بیگانہ است
یعنی فلسفی جو’’ستون حنانہ ‘‘کے رونے اور اس کی آواز سنائی دینے کے معجزہ سے انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’فلسفی‘‘انبیاء علیہم السلام کے حواس کی بے پناہ باطنی قوتوں سے ناواقف ہے۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ؎
نطقِ خاک و نطقِ آب و نطقِ گل ہست محسوس حواس اہل دل
یعنی مٹی، پانی ،کیچڑکی بولیوں کو بھی اہل دل کے حواس محسوس کرتے اور جان لیتے ہیں ۔
اللہ پاک ہمیں بھی نرم دلی کی نعمت عطافرئے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!