سیکولرازم کیا ہے اور اس کا ارتقا کیسے ہوا؟
سیکولر ازم اصل میں لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’دنیا داری‘‘اور اصطلاح میں دین کو معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی سے نکال دینے کو کہتے ہیں۔ عربی میں سیکولر ازم کے معنی ’’علمانیۃ‘‘ اور اردو میں ’’لادینیت‘‘ ہیں۔
سیکولر ازم ایک مغربی نظریہ حیات ہے کہ جس کے مطابق ریاست، سیاست اور مذہب کو الگ الگ ہونا چاہئے۔ یعنی ریاست کے فیصلے، قوانین اور حکومت کا نظام مذہبی اصول اور عقائد سے متاثر نہ ہو۔
سیکولر ازم کا ارتقاء یورپ کی مذہبی تاریخ اور سیاسی تبدیلیوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس کا سفر ایک دو صدیوں پر نہیں بلکہ کئی صدیوں پر مشتمل ہے۔ آئیے ملاحظہ کرتے ہیں سیکولر ازم کی ابتدائی اقسام اور تاریخی پہلو۔
سیکولرازم کی اقسام
سیکولر ازم کو مذہبی اخلاقیات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
(1): ’’سخت گیر‘‘ (2) ’’نرم گیر‘‘
(1): سخت گیر سیکولرازم مذہبی اصول اور قوانین کو غیر قانونی قرار دیکر ہر طرح سے ان کا انکار کرتا ہے ۔
(2): نرم گیر سیکولر ازم زیادہ تر لبرل ازم کو فوقیت دیتا ہے۔
سیکولر ازم کا آغاز کہاں اور کیسے ہوا؟
سیکولر ازم کی تاریخ میں سب سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر اس طرح آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے دین کی تبلیغ کی، پھر آپ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد آپ کی تعلیمات کو بالکل چھوڑ دیا گیا اور نصف صدی بعد سینٹ پال Saint paul نامی ایک کٹر یہودی نے مذہب عیسائیت کو قبول کیا اور سارے مذہب عیسائیت کو خواب اور مکاشفات کے ذریعے پھیلانے لگا۔
سیکولرزم کا تاریخی پسِ منظر
اس طرح سولہویں صدی تک یورپ میں مذہبیت عیسائیت کو بہت زیادہ اثر و رسوخ رہا اور انہوں نے سیاسی و سماجی ہر طرح سے مداخلت کی۔سترھویں صدی عیسائیت پر سائنسدانوں نے عیسائیت پر اعتراضات اٹھائے چرچ اور کلیسا کے خلاف بغاوت کی اس طرح عیسائی مذہب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور منافق گروہ نے سائنسدانوں کی حمایت کی۔ ادھر عیسائیوں نے سائنسدانوں پر ظلم ڈھائے اور تشدد کیا جس کی وجہ سے سائنسدان مزید دہرئیے بن گئے اور منافق گروہ کے ساتھ مل عیسائیوں کو ختم کرنے کی ٹھان لی اور مذہب کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی مذہب قلیل تعداد میں کلیسا تک محدود رہ گیا۔
مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار
سیکولرزم کے فروغ میں جن بدباطن اور کج فکر مفکرین نے بنیادی کردار ادا کیا، ان میں مغرب کے چند نام نمایاں ہیں۔
چارلس ڈارون (Charles Darwin) نے تحقیق کے نام پر ”نظریۂ ارتقاء“ پیش کیا، جو خالقِ حقیقی کے انکار اور انسان کی مادی تعبیر کا سب سے بڑا فریب قرار پایا۔
اسی طرح سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud) نے ”نظریۂ جنسیت“ کے ذریعے اخلاقی حدود کو مٹا کر مغربی معاشرے کو بے راہ روی کی طرف دھکیلا۔
ایمل ڈرکائم (Émile Durkheim) نے ”نظریۂ عقلیت“ کے ذریعے مذہب کو غیر ضروری قرار دیا، جبکہ جان پال سارتر (Jean-Paul Sartre) نے ”نظریۂ وجودیت“ کے ذریعے انسان کو خود مختار اور خدا سے بے نیاز بنانے کی کوشش کی۔
اسی فکری زنجیر میں آدم اسمِتھ (Adam Smith) نے ”سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)“ کی بنیاد رکھی، اور کارل مارکس (Karl Marx) نے ”کمیونزم (Communism)“ کو جنم دیاجو تمام مادی نظریات کا نچوڑ تھا، جس نے مذہب، روحانیت اور اخلاقیات کو صرف طبقاتی مفادات کا کھیل بنا دیا۔
دوسری جانب مشرق میں انہی مغربی افکار کے علمبردار کے طور پر کمال اتاترک، طٰہٰ حسین، جمال عبدالناصر، انور سادات، علی پاشا، سرسید احمد خان، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی، غلام پرویز اور غلام احمد قادیانی جیسے افراد نے اسلامی تہذیب کی روح پر حملہ کیا۔ انہوں نے مغربی فلسفوں کو “ترقی” کے نام پر مشرقی دنیا میں عام کیا اور دین کو ریاست سے جدا کرنے کی تحریک چلائی۔
آج انہی نظریات کو گلوبلائزیشن (عالمگیریت) کا خوبصورت نام دے کر پوری دنیا میں عام کیا جا رہا ہے، جہاں مذہب کو نجی معاملہ اور مادیت کو زندگی کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ دراصل یہی سیکولرزم کا فریب ہے۔جو انسان کو اس کے رب سے کاٹ کر صرف دنیا کی چمک دمک میں الجھا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیکولرزم کے اس فکری زہر سے محفوظ فرمائے اور ایمانِ کامل عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین۔
سیکولر ازم کے اہداف و مقاصد
• سیکولر ازم کا بنیادی مقصد انسان کو اللہ اور اس کے عطا کردہ نظام سے جدا کرنا اور اس کی فکری بنیادوں کو مادیت پر قائم کرنا ۔
• مذہب میں شکوک وشبہات پیدا کرنا تا کہ لوگ مذہب سے دور ہو جائیں۔
• ملحدانہ اور مادّہ پرست نظریات کو فروغ دینا اور لوگوں کے اندر ایسی سوچ پیدا کر دینا کہ لوگ مذہب سے بیزار ہو جائیں اور مادہ پرست ہو جائیں۔
• مذہب کو حکومت، سیاست، معاشرت اور سماج سے جدا کر دینا۔
• جمہوریت کو سہارا دینا۔
• سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کو بہت زیادہ فروغ دینا۔
• انسان مذہب کو اپنے آپ تک رکھے آگے نہ بڑھائے، سیایسی اور سماجی معاملات میں مذہب کو نہ لائے ذاتی طور پر ہی مذہب پر عمل کرے۔
• با اثر شخصیات کے ذریعے اپنے نظریات کو ثابت کرنا۔
سیکولر ازم کو عام کرنے کے ذرائع وطریقے
سیکولر ازم کے پھیلاؤ کے لیے مغرب نے محض نظریاتی بنیادیں ہی نہیں رکھیں بلکہ اس کی اشاعت کے لیے جدید ترین ذرائع استعمال کیے۔ یوں اس نے فکری، معاشی اور سماجی محاذوں پر ایک ہمہ گیر جنگ برپا کی۔
۱۔ میڈیا کا استعمال
سیکولر نظریات کی ترویج کے لیے میڈیا سب سے طاقتور ہتھیار بنا۔ چاہے وہ ٹی وی چینلز، فلم انڈسٹری، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (Facebook, Twitter, YouTube) ہوں سب سیکولر ذہنیت کے اثر میں ہیں۔ یہ ادارے مذہب مخالف نظریات کو فروغ دیتے ہیں اور اسلامی اقدار پر بات کرنے والوں کو محدود یا خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۲۔ پروپیگنڈا (Propaganda)
مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے منظم پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اسلام کے نظریہ جہاد کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا، پردہ اور عفت کو قید اور ظلم قرار دیا گیا، اور آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو دین سے بیزار کیا گیا۔ یہ ذہنی یلغار اس قدر وسیع ہے کہ آج بہت سے مسلمان بھی غیر محسوس طور پر ان پروپیگنڈا نظریات کے زیرِ اثر ہیں۔
۳۔ جدیدیت (Modernism)
جدیدیت کے نام پر یہ باور کرایا گیا کہ مسجد جانا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوٰۃ دینا سب دقیانوسی اعمال ہیں۔ سیکولر مفکرین نے کہا کہ “جدید دور میں مذہب پر عمل ممکن نہیں”، حالانکہ اسلام وہ واحد دین ہے جو ہر زمانے کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے۔ اسی لیے یہ “جدیدیت” دراصل جدید جاہلیت ہے۔
۴۔ بہتر قیادت سے متنفر کرنا
سیکولر طاقتیں مسلم معاشروں میں اسلامی قیادت کے خلاف نفرت پھیلاتی ہیں۔جب بھی کوئی مخلص، دیندار قیادت سامنے آتی ہے،میڈیا پروپیگنڈا، الزامات، حتیٰ کہ قتل و سازش تک کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک اس کی مثال ہیں، جہاں دہائیاں گزر گئیں لیکن کوئی مکمل اسلامی قیادت ابھر نہیں سکی۔
سیکولر ازم کے معاشی اثرات
سیکولر ازم کے دو بڑے معاشی ستون ہیں:
سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) اور اشتراکی نظام (Communism)۔
پہلے جاگیردارانہ نظام (Feudalism) رائج تھا جس میں چند افراد دولت کے مالک اور عوام غلام بنے ہوئے تھے۔ پھر کیپٹل ازم نے اسی استحصال کو "آزادی تجارت" کے خوبصورت لفظوں میں لپیٹ دیا۔ اس نظام میں اگرچہ مزدوروں کے کچھ حقوق دیے گئے، لیکن عملاً دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں رہا۔
دوسری جانب اشتراکی نظام نے سرمایہ داریت کے مقابلے میں مساوات کا نعرہ لگایا، لیکن روس اور چین میں یہ نظام پچاس برس کے اندر ناکام ہو گیا۔ یوں دنیا پھر سرمایہ دارانہ سیکولر نظام کے شکنجے میں آ گئی، اور مسلم ممالک بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ رہے۔
ان دونوں نظاموں نے انسانی مساوات، عدل اور انصاف کے اسلامی اصولوں کو روند ڈالا۔ نتیجتاً ظلم، استحصال اور طبقاتی تقسیم نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔
مسلم معاشروں میں سیکولر ازم کا فروغ
۱۔ نفس پرستی
مسلمانوں میں نفس پرستی اور دنیا پرستی نے سیکولرازم کے لیے راستہ ہموار کیا۔ جو شخص اپنی خواہشات کا غلام بن جائے، اس کے لیے شریعت کی پابندیاں ناگوار بن جاتی ہیں۔
۲۔نظریاتی و تعلیمی اثرات
سیکولر مفکرین نے اپنی باتوں کو عقلی اور سائنسی دلائل سے مزین کیا،تعلیمی اداروں، سیمینارز اور میڈیا کے ذریعے نئی نسل کے ذہنوں میں مذہب سے بے زاری کا زہر غیر محسوس طریقے سے بھر دیا۔ ایک استاد کا طلباء کو ٹافی دینے والا قصہ اسی ذہنی یلغار کی علامت ہے کہ مذہب کچھ نہیں، سب کچھ انسان خود ہے۔
۳۔ مغربی تہذیب سے مرعوبیت
ذہنی غلامی نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ جو بات مغرب سے آتی ہے، ہم بلا سوچے سمجھے قبول کر لیتے ہیں۔ یہی غیر شعوری مرعوبیت سیکولرازم کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
علماء کا ردعمل
علماء کرام نے سیکولر ازم کے مقابلے میں مختلف انداز اپنائے:
1. روایتی علماء: جنہوں نے اسلام کی حقانیت پر زور دیا، مگر سیکولر ازم کا علمی رد نہ کر سکے۔
2. متجددین : جو مغربی فلسفے سے مرعوب ہو کر اسلام کی نئی تشریحات کرنے لگے۔
3. جدید مسلم علماء : جنہوں نے اسلام کی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے سیکولر افکار کو سمجھا، ان کا علمی تجزیہ کیا اور مدلل رد پیش کیا — یہی متوازن اور مؤثر راستہ ہے۔
سیکولر ازم کے عملی نقصانات
سیکولر حکومتوں نے تاریخ میں ظلم و بربریت کی انتہا کی:
• مصر: جمال عبد الناصر نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کروایا۔
• عراق: صدام حسین اور احمد حسن البکر کے دور میں ظلم و خونریزی۔
• ایران: رضا شاہ پہلوی نے دینی طبقات پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔
• یورپ: پہلی و دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔
• امریکہ: ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹم بم، سیکولر “امن” کا اصل چہرہ بے نقاب کر گیا۔
یہی وہ نظام ہے جو “انسانیت” کے نام پر انسان کا خون پیتا رہا، اور آج بھی دنیا کو جنگوں، ظلم اور بے سکونی میں دھکیل رہا ہے۔
سیکولر ازم کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟
جب سیکولر ازم کا مطلب و مفہوم سمجھ میں آگیا تو سیکولر فرد کی تعریف اور پہچان مشکل نہیں، سیکولر ازم صریح کفر ہے اس کا مرتکب کافر و مرتد ہے، سیکولر ازم اسلام کی ضد ہے، اسلام کی آمد سے تمام ادیان سماویہ منسوخ ہوگئے اور دیگر ادیان و مذاہب مردود ہوگئے، اسلام کے سوا کسی سے کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴿آل عمران: 85﴾
ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
اور اسلام کے آجانے کے بعد روئے زمین پر کسی انسان کیلیے کسی دین کو قبول کرنے کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا، بلکہ ساری انسانیت جو حدِ تکلیف کو پہنچتی ہے وہ قیامت تک کیلیے اسلام کے سامنے سر بہ خم کرنے پر مجبور کردی گئی ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ سرکارمکہ مکرمہ،سردارمدینہ منورہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ ’’لَااِلٰہَ اِلَّااللہ‘‘ کا اقرار کرلیں،نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، جب وہ ایساکریں گے توان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہوجائیں گے،سوائے کسی(واجب) حق کےاوران کاحساب اللہ پاک کے ذمہ ہے۔
پس باقی مذاہب کے بارے میں دینِ اسلام کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے، اسلام میں کفار کی جان اور مال کی حرمت صرف چند صورتوں میں عارضی طور پر واقع ہوسکتی ہے، جن میں ذمی، مستامن، معاہد وغیرہ شامل ہیں، اس کے علاوہ تمام کفار حربی ہیں مباح الدم و المال ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔پس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد کسی شخص کیلیے کوئی مذہبی آزادی باقی نہیں رہی۔
جس شخص نے مذہبی آزادی کو حلال کہا بلا شبہ اس نے کفر کیا، جس نے اس کی تائید و موافقت کی اس نے بھی کفر کیا، چاہے وہ کسی اخبار کا صحافی ہو یا کسی مسجد کا مولوی، چاہے وہ سیکولر ازم وطنیت کے پردے میں ہندؤوں عیسائیوں سکھوں کو اپنا بھائی قرار دے کر ہو یا انسانیت کا منجن بیچ کر دنیا بھر کے کفار سے موالات کرنے سے ہو، سیکولر ازم، مذہبی آزادی، حریتِ ادیان اور خیار فکر اور اس جیسے تمام نعرے اور نظریات صریح کفر ہیں، ان کا پرچار کرنے والے کفار و مرتدین ہیں، اسلام میں ان کیلیے کوئی گنجائش نہیں۔
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ۔
ترجمہ: بیزاری کا حکم سنانا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے۔
سیکولر ازم کا شرعی حکم اور اس کے تباہ کن اثرات
اسلامی علماء و فقہاء کے نزدیک سیکولر ازم ایک دہریہ مذہب ہے جو اسلام سے صریح انحراف ہے۔ یہ فکر انسان کو دین سے کاٹ کر مادہ پرستی، بے حیائی اور الحاد کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی نظریے نے خلافتِ عثمانیہ کے زوال، اسلامی وحدت کی تقسیم، اور اخلاقی تباہی کی بنیاد رکھی۔ آج مغرب کے نام نہاد روشن خیالات نے امت مسلمہ کو فکری غلامی میں جکڑ رکھا ہے، جہاں جمہوریت و آزادی کے نام پر ایمان و اخلاق کو روند دیا گیا ہے۔
اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نجات کا راستہ صرف ایمان، تقویٰ، قرآن و سنت کی پیروی اور باطل نظاموں (عصر حاضر کے مذہبی فتنوں) سے مکمل بیزاری میں ہے۔ اگر مسلمان پھر سے قرآن کی رسی مضبوطی سے تھام لیں، علماء کی رہنمائی میں اپنی اصلاح کریں، اور مغربی فریب سے بیدار ہو جائیں تو اسلامی غلبہ کی راہیں خود بخود ہموار ہو جائیں گی۔
اسلام کا نظریۂ حیات اور نجات کی تدبیر
اسلام واحد نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو اللہ پاک کے پاک کلام اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا تابع اور فرمانبردار بناتا ہے۔
قرآن کا واضح بیان ہے:
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ(۴) (الفاتحہ)۔
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح اعلان ہے:
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رءوف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی ،جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اورجس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اورجس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری)
اسلامی توحید انسان کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کرتی ہے اور توحید و رسالت کا درس دیتی ہے۔ مسلمان بچپن سے توحید و رسالت کے کلمات سنتا ہے اور موت تک اسی پر قائم رہتا ہے۔ یہی عقیدہ انسان کو طاغوت، مادیت اور انسانی خداؤں سے نجات دیتا ہے۔
اسلامی معاشرت اور اخوت
اسلامی معاشرہ ایمان، اخوت اور تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ (الحجرات: 10)۔
ترجمہ: بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اسلام ہر ایسی دوستی سے روکتا ہے جو دین کے خلاف ہو، اور ایمان والوں کے باہمی تعلق کو مضبوطی سے قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
سیکولر ازم سے بچنے کی تدابیر
1. ایمان کی تجدید: دلوں میں توحید اور آخرت کا یقین پختہ کیا جائے۔
2. دینی تعلیم کا فروغ: اسکول و کالجز میں اسلامی نظریات کی تعلیم شامل کی جائے۔
3. علماء کی سرپرستی: دین دار قیادت کو مضبوط کیا جائے۔
4. مغربی میڈیا و فتنوں سے ہوشیاری: فکری غلامی سے بچنے کے لیے شعور بیدار کیا جائے۔
5. اسلامی نظامِ معیشت، سیاست و اخلاق کا احیاء: تاکہ زندگی کے تمام پہلو دین کے تابع ہوں۔
سیکولر ازم کے دو صدیوں نے دنیا کو صرف جنگ، ظلم، فقر اور فکری الحاد دیا۔ اس سے نجات کا واحد راستہ اسلامی نظامِ حیات کو اختیار کرنا ہے۔
مسلمان اگر قرآن و سنت کے مطابق اپنا نظریہ، تعلیم، معیشت اور سیاست قائم کر لیں تو وہ دوبارہ عزت و طاقت کی بلندیوں کو پا سکتے ہیں۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!