فتنوں کے دور میں مسلمانوں کا کردار

کیا آپ جانتے ہیں کہ فتنوں کے زمانے میں ایمان کیسے محفوظ رکھا جائے؟ جب دنیاوی مشکلات، تنگ دستی، یا دعا کے دیر سے قبول ہونے پر شیطان انسان کے ایمان پر حملہ کرتا ہے، تو ہم کس طرح ہر آزمائش میں صبر اور اللہ پر بھروسہ برقرار رکھ سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مذہبی فتنوں کا مؤثر حل کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایمان سے دستبرداری نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے اور مؤمن کے درجات میں بلندی کیسے لائی جا سکتی ہے؟ یہ مضمون آپ کو دکھائے گا کہ مشکلات میں ایمان کو کیسے مضبوط بنایا جائے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔

November 20, 2025
عصر حاضر میں منفی مذہبی فتنوں میں سے سیکولر ازم اور لبرل ازم کا پھیلاؤ محض نظریاتی بحث تک محدود نہیں رہا اس کے سماجی، اخلاقی اور عقیدی اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مضمون اسی تناظر میں مرتب کیا گیا ہے: ایمان کی کمزوری، بے حیائی، رزق کے راستوں کی پریشانیاں اور مذہبی رہنماؤں کی کمزوری ان تمام مسائل کا علاج کیا ہو سکتا ہے؟ ذیل میں عملی، قرآنی اور نبوی حوالوں سے مستند تدابیر پیش کی گئی ہیں۔

فتنوں کے زمانہ میں ایمان کی حفاظت

اللہ تعالیٰ پر ایمان ہر مسلمان کے لیے بنیادی اصول ہے، لیکن مشکل حالات میں شیطان ایمان پر حملہ کرتا ہے۔ تنگ دستی، دعا کے قبول نہ ہونے یا دوسروں کی نعمتیں دیکھ کر انسان کو وسوسے دیتے ہیں، جو رفتہ رفتہ مذہب سے بدظنی اور دہریت کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

مؤمن کو چاہیے کہ ہر حال میں اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھے۔ آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں اور ان میں صبر کرنے والا درجات میں بلندی پاتا ہے۔ یاد رکھیں، اللہ کے خزانے لامحدود ہیں اور ہر دعا فوراً قبول ہونا ضروری نہیں۔ دنیاوی مصیبتوں میں ایمان سے دستبردار ہونا سب سے بڑی نقصان ہے، کیونکہ یہ نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی برباد کر سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَشْقَى الأشقياءِ مَنِ اجتمع عليه فقرُ الدنيا و عذابُ الآخرةِ

ترجمہ: سب سے زیادہ بد بخت وہ ہے جس پر دنیا میں فقر اور آخرت میں عذاب جمع ہو گیا۔

فلاح و کامیابی صرف اسلام میں ہے

آج دہریے اور مغرب کے پیروکار اسلامی تعلیمات کو شدت پسندی ٹھہرا کر ملکی و معاشی ترقی یورپین ممالک کی تقلید میں منحصر کر رہے ہیں اور جن قوانین و افعال سے خود یورپ تنگ آئے بیٹھے ہیں ان کو اسلامی ممالک میں رائج کر کے لوگوں کی اخلاقیات کو تباہ کر رہے ہیں اور اسے ترقی سمجھ رہے ہیں۔ یقین جانیے کہ بے حیائی عام کرنے ، اسلامی سزاؤں کو ختم کرنے ، دین کو فقط مساجد تک محدود کرنے سے ملک و معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرے گابلکہ ہر بار ہو گا جیسا کہ ہو رہا ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو وہ دین جو مدینہ سے چند مسلمانوں کے ساتھ نکلا مختصر وقت پر لاکھوں مربہ میل تک پھیل گیا اس کے پیچھے اصل وجہ اسلامی تعلیمات تھیں ، جب تک مسلمان اس پر کار بند رہے کامیاب ہوئے۔

اللہ عزو جل نے قرآن پاک میں فرمایا

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران: 200)

رجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ کامیاب ہو ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ( المائدة : 90)

ترجمه کنزالایمان: اے ایمان والو شراب اور جوا اوربت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔

فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْۤا اِلَى السَّلْمِ ﳓ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ﳓ وَ اللّٰهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ یَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ (محمد: 35)

ترجمہ کنز الایمان: تو تم سستی نہ کرو اور آپ صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم ہی غالب آؤ گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہر گز تمہارے اعمال میں تمہیں نقصان نہ دے گا ۔

کئی دہریوں کو دیکھا گیا ہے کہ پہلے اپنی جہالت میں دہریے ہو جاتے ہیں پھر قرآن و حدیث کو تنقیدی نگاہ سے پڑھنا شروع کرتے ہیں اور اس پر باطل قسم کے اعتراض کرتے ہیں ، اگر اسی قرآن و حدیث کو پہلے پڑھتے تو دہریے ہی نہ ہوتے۔

سنن الدارمی کی حدیث پاک ہے

عن أبي أمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ البِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«سَتَكُونُ فِتَن يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنَا، وَيُمسِ كَافِرًا، إِلَّا مَنْ أَحْيَاهُ اللهُ بِالْعِلْمِ »

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عنقریب فتنے ہوں گے صبح انسان مومن ہو گا اور شام کو کافر ، سوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالٰی نے علم کے ساتھ زندہ رکھا((سنن الدارمي، جلد 1 ، صفحہ 359، حديث 350))۔

ہر مسلمان کو چاہیے کہ تقویٰ اختیار کرے یعنی ہر حالت میں اللہ سے ڈرے، ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل اجتناب کرے اور ہر فرض و سنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائے۔ متقی لوگوں پر گھر اور دہریوں کے وار نہیں چلتے۔ اللہ عزوجل قرآن پاک میں فرماتا ہے

وَ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ (النمل: 53)

ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے ان کو بچالیا جو ایمان لائے اور ڈرتے تھے۔

رزق حلال

حلال کمائی کی تلاش بھی فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔ اپنے ایمان کی حفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ رزق حلال کمانا اور کھانا ہے۔ حرام روزی کے جہاں اور نقصانات ہیں وہاں ایمان کا ضائع ہونا بھی ہے۔ جب حرام کھانے کی لت پڑ جائے تو شیطان حرام کو بھی حلال ظاہر کرتا ہے اور انسان کے منہ سے کئی کفریات نکلواتا ہے۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ کئی گانے باجے والے واضح طور پر نہ صرف ان گانے باجوں کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کو روح کی غذا کے ساتھ چیرٹی شوز میں باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ کئی حرام کھانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ حرام روزی چھوڑ دی تو بھو کے مر جائیں گے ۔

امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”رزق اللہ عزوجل کے ذمہ ہے جس نے ہوائے نفس کی پیروی کر کے طریقہ حرام اختیار کیا اسے ویسے ہی پہنچتا ہے اور جس نے حرام سے اجتناب اور حلال کی طلب کی اسے رزق حلال پہنچاتے ہیں۔ امام سفیان ثوری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کو نوکری سے کام سے منع فرمایا، اس شخص نے ) کہا بال بچوں کو کیا کروں؟ (حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ذراسینیو یہ شخص کہتا ہے کہ میں خدا کی نافرمانی کروں جب تو میرے اہل و عیال کو رزق پہنچائے گا اور اطاعت کروں تو بے روزگارچھوڑ دے گا۔ بلکہ اس بارے میں ایک حدیث بھی مروی کہ عمرو بن قرو رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی یارسول اللہ ! میں بہت تنگ حال رہتا ہوں اس حیلہ کے سواد وسری صورت سے مجھے رزق ملتا معلوم نہیں ہوتا مجھے ایسے گانے کی اجازت فرمادیجئے جس میں کوئی امر خلاف حیا نہیں۔ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اصلاً کسی طرح اجازت نہیں اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے حلال روزی تلاش کر کہ یہ بھی راہِ ) خدا میں جہاد ہے اور جان لے کہ اللہ تعالٰی کی مدد نیک تاجروں کے ساتھ ہے(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ 528، رضا فاؤنڈیشن)۔“

روزگار کے لیے کفر کا ارتکاب

بعض نادان لوگ فقط ایک روزگار کے لیے کفر میں جاتے ہیں، یورپ ممالک میں جانے کے لیے خود کو غیر مسلم ظاہر کرتے یا بے دین این جی اوز کے تحت کام کرنے کے لیے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ رزق کے لیے بچوں سمیت یورپ ممالک میں رہنے والوں کے لیے غور و فکر کا مقام ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دولت تو مل جائے لیکن اولاد یورپ میں رہ کر اس کے ماحول میں رنگ جائے اور سیکولر یا دہریہ بن جائے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے ہی ملک و شہر میں رزق مل جائے۔

حدیث پاک میں فرمایا گيا

أربعٌ مِن سعادَةِ المرءِ أن تَكونَ زوجتُهُ صالِحةً وأولادُه أبرارًا وخُلَطاؤهُ صالِحينَ وأن يَكونَ رزقُه في بلدِهِ

ترجمہ: چار باتیں آدمی کی سعادت مندی کی ہیں: صالحہ بیوی ہو، اولاد نیک ہو، دوست احباب نیک و صالح ہوں، ذریعہ معاش اپنے شہر میں ہو(کنز العمال، جلد 11، صفحہ 139، حدیث 30756)۔

بے حیائی سے اجتناب

دیسی دہریت میں سب سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو بے حیائی نے اپنے اندر ایسا لپیٹا کہ وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تعلیمات ہیں کہ حیا کو اپنا یا جائے کہ ایمان حیا کے ساتھ ہے دونوں میں سے ایک بھی جائے تو دوسرا خود بخود چلا جاتا ہے۔ انسان جیسے ہی بے حیا ہوتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہو نا شروع ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ زنا کو حلال سمجھ کر کفر کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ آج تمام میڈیا بے حیائی کو فروغ دینے میں مگن ہے۔ ہماری نوجوان نسل دن بدن اس کنویں میں گرتی جارہی ہے۔ فلموں ڈراموں میں جنگی عورتوں کو دکھا کر شہوت کو ابھارا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن کوئی کسی چھوٹی عمر کی بچی سے زیادتی کر رہا ہے تو کوئی کسی جانور سے بد فعلی کر کے اپنی شہوت نکال رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ موبائل کا استعمال کم کریں اور ٹی وی دیکھنے سے گریز کریں کہ اس میں وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایمان کا خراب ہونا بھی ہے۔

جاہل و گمراہ قسم کے مذہبی علمیہ والوں سے دوری

فی زمانہ عوام الناس کے دین سے دور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دین سیکھانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں کچھ آتا جاتا نہیں یا گمر اہ لوگ ہیں۔ کئی اینکر ز عالم بنے ہوئے ہیں، کئی صحیح علماء کی اولاد بغیر پڑھے خود کو عالم سمجھے ہوئی ہے اور لوگ بھی ان کو عالم سمجھتے ہیں۔ کئی ایسے نام نہاد مفتی بنے بیٹھے ہیں جو حرام کو حلال محبت کر رہے ہیں جیسا کہ جاوید غامدی ہے جو در حقیقت منکرین حدیث ہے لیکن سر عام اس کا اقرار نہیں کرتا اور قیاس کو شرعی احکام پر ترجیح دیتے ہوئے حرام کو حلال کہہ رہا ہوتا ہے۔

کئی صلح کلی اور دولت کی ہوس کا شکار چند انگلش کی جملے سیکھ کر خود کو عصر حاضر کا مجدد سمجھ کر سود اور دیگر حرام کاموں کو جائز قرار دیتے ہوئے صحیح علمائے کرام کو جاہل و شدت پسند ثابت کرتے ہیں۔جب انسان شریعت کے مطابق نہ چلے جبکہ شریعت کو اپنے نفس کے تابع کرنے اور گمراہ لوگ اس کی منشا کے مطابق فتوی دیں تو وہ رفتہ رفتہ کفر میں چلا جاتا ہے۔ آج کئی مسلمان رشوت ، سود اور دیگر حرام افعال کو جائز سمجھے بیٹھے ہیں۔

صحیح العقیدہ علمائے کرام کی صحبت و محبت

فی زمانہ ایمان کی سلامتی کا سب سے بڑا ذریعہ علم دین ہے اور صحیح علمائے کرام کی صحبت اختیار کرنا اور ان سے محبت کرتا ہے۔

المعجم الاوسط کی حدیث پاک ہےحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

كُنْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُحِبًّا أَوْ مُتَّبَعًا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلِكَ

ترجمہ : اس حال میں صبح کر کہ تو عالم ہو یا متعلم یا عالم کی باتیں سننے والا، یا عالم سے محبت کرنے والا، پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہو جائے گا(السنن الکبریٰ للبھیقی: (رقم الحدیث: 381)۔

آج میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو علمائے کرام کے خلاف کیا جارہا ہے اور عام لوگ علماء پر پھبتیاں کستے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ عوام کنجروں کی حوصلہ افزائی کر دیتی ہے لیکن حفاظ و علمائے کرام اور ائمہ مساجد پر طعن و تشنیع ہی کرتی ہے۔ ایک عام شخص کے دل میں جب علماء سے محبت ختم ہو جائے اور وہ ہر عالم کو معاذ اللہ فتنہ باز اور فرقہ واریت پھیلانے والا سمجھ لے تو یہ اس کے لیے ہلاکت ہے۔

آج ہماری عوام کی اکثریت کو صحیح عقیدہ اور بد عقیدگی میں فرق کا پتہ نہیں۔ بد عقیدگی اور بد عقیدہ مولویوں کے بارے میں انہیں بتایا جائے تو اس کو فرقہ واریت سمجھتی ہے۔ اسی جہالت کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں کہ آئے دن نئے سے نیا فرقہ وجود میں آکر گمراہی کو عام کر رہا ہے۔

اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں تک صحیح ایمان پہنچانا چاہتے ہیں تو خود دین سیکھنے اور اولاد کو دین سیکھانے کا عزم کریں۔ صاحب ثروت لوگ اپنے بچوں کو دین کا علم سکھائیں تاکہ ان کے بچے اپنے صاحب حیثیت رشتہ داروں میں با آسانی دین پھیلا سکیں۔ فقط مولویوں پر طعن و تشنیع کرنا اور خود نہ مولوی بنانہ اپنی اولاد کو بنانا بے وقوفی و بخض ہے۔

سیاست کو سیکولر لوگوں سے پاک کرنا

اس پوری کتاب میں موجود مذاہب کی تاریخ پڑھ کر آپ پر واضح ہوا ہو گا کہ جس مذہب کو صاحب اقتدار لوگ اپنا لیں وہ مذہب ترقی کرتا ہے۔ مغرب میں سیکولر ازم اور دہریت کے فروغ کی وجہ یہی ہے کہ وہاں کے سیاستدانوں نے اس کو اپنا یا۔ ترکی سمیت کئی مسلم سیاستدانوں نے بھی ملکی ترقی اور یورپین ممالک سے مفادات حاصل کرنے کے لیے سیکولرازم کو اپنا یا لیکن سوائے ناکامی و ہلاکت کے کچھ نہ ملا۔ موجودہ پاکستانی بھی کئی بڑے بڑے سیاستدان سیکولر ازم کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں، یہی وجہ ہے کوئی ہندوؤں کے ساتھ ان کے تہوار منا رہا ہے اور کوئی چرچ بیٹھا ہوا پوری دنیا کو یہ ظاہر کروارہا ہے کہ ہم اسلامی نظام کو لانے کے دعویدار نہیں۔ برما ہو یاد یگر ممالک جن میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے یہ سیاسی لیڈر ان کے حق میں آواز نہیں اٹھائیں گے کہ کہیں یورپ ہمیں مسلمان کا خیر خواہ سمجھ کر امداد دینا بند نہ کر دے۔

ہماری عوام کی بے حسی و بے وقوفی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ووٹ ان سیکولر لوگوں کو ڈال کر بے دینی کو عام کرر ہے ہیں۔ ہماری عوام نہ قرآن و حدیث پڑھتی ہے نہ پہلی قوموں کے عروج وزوال کو پڑھتی ہے۔ ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ہمارے غدار لیڈر ہم لاکھوں مسلمانوں کے ووٹ لے کر اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اقلیتی کفار کو راضی کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔

آج ہر مسلمان تو یہ سوچتا ہو گا کہ وہ خود کہاں کھڑا ہے اور اپنے افعال سے سیکولر ازم اور دہریت کو کہیں فروغ تو نہیں دے رہا؟؟؟ آج ہم مسلمانوں کی دینی سوچ ہمارے اور ہمارے بچوں کے ایمان کو بچاسکتی ہے اور نہ آنے والی نسلوں میں سیکولر ازم اور دہریت اس طرح کھی جائے گی جس طرح بے حیائی ہمارے اندر جڑ پکڑ چکی ہے۔ خدار !! جاگ جاؤ ان عیاشی بے دین لیڈروں سے اپنے ملک اور نسلوں کو بچالو ، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب یہ لیڈر آزاد خیالی اور آزادی رائے کو اتنا مضبوط کر دیں گے کہ آئے دن انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخیاں ہو رہی ہوں گی، ختم نبوت کے قانون کو ختم کر دیا جائے گا اور کئی جھوٹے نبوت کا دعویٰ کر کے ہماری نسلوں کے ایمان بر باد کریں گے۔ ہماری عورتیں گھروں کی بجائے بازاوں کی زینت ہوں گی۔ المختصر وہ سب کچھ ہو گا جو آج کل یورپ میں ہو رہا ہے۔ اس وقت ہماری اولادیں یا تو خود بے شرم و بے دین ہوں گی یا یہ کہیں گے کہ کاش ہمارے بڑوں نے صحیح العقید و دین دار لیڈروں کو ووٹ دے کر اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہوتی۔

Tags

No tags

Comments (0)

Login Required
Please login to add a comment and join the discussion.

No comments yet

Be the first to share your thoughts on this article!