لبرل ازم میں آزادی، انفرادیت، انصاف ، عقل اور تنوع جیسے تصورات کی آفاقی حیثیت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ان تصورات کی الہیاتی عقلی اور مادی اساس کے درمیان فرق قائم کیا جائے تا کہ قدیم الہیاتی، روشن خیال عقلیت اور عہد حاضر کی غیر عقلیت یا عقلیت کی توسیع کے تصور پر مبنی ان تصورات کی حقیقت کو سمجھا جاسکے۔
لبرل ازم کا لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہے؟
لغوی معنی: آزاد ہونا
اصطلاحی تعریف: خود کو انفرادی حیثیت سے دین سے آزاد مجھنا۔ برل سوچ کے حامل افراد اپنی ذاتی زندگی میں بیرونی مداخلت کو تسلیم نہیں کرتے، خواہ وہ مذہب کی طرف سے ہو یاریاست کی طرف سے۔
لبرل ازم کا تاریخی پس منظر
جب کسی کے ذہن میں یہ راسخ ہو گیا کہ میری سیاسی و سماجی زندگی میں مذہب کی کوئی حیثیت نہیں تو وہ اس کو اپنی داخلی زندگی سے بھی نکال دیتا ہے لبرل ازم سیکولر ازم کی انتہاء ہے۔ لبرل ازم کی کوئی جدا تاریخ نہیں ہے کیونکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ سیکولر ازم نے پہلے معاشرتی اور سیاسی میدان پر قبضہ کیا اور اسی لئے قبضہ کیا تا کہ لوگوں کو لبرل بنائے اور لبرل سے کافر بنائے، برطانوی فلسفی جان لاک John locke پہلا شخص ہے جس نے لبرل ازم کو با قاعدہ ایک فلسفہ اور طرز عمل کی شکل دی، جب سائنسی ترقی ہوئی تو انہوں نے مذہب پر کثیر اعتراضات کئے اور نجی زندگی سے بھی دین کو معطل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
لبرل ازم کے اصول کتنے ہیں؟:-
لبرل ازم کے بنیادی اصول دو ہیں.
الف) آزادی
ب) مساوات
اگر چہ انسانوں کے بناتے ہوئے اصول ہر روز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے میں اورنئی تشریحات کے محتاج ہوتے میں لیکن تفصیل درج ذیل ہے۔
الف) آزادی
روشن خیالی اور آزاد خیالی کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق ہے۔ تاہم اگر ان کے درمیان بنیادی تضاد کی نوعیت سے آگا ہی نہ ہو تو ان مختلف فلسفوں کے درمیان مماثلت کا تصور ابھر نے سے ان کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر بھی پیش کیے جانے کا باطل امکان موجود رہتا ہے۔ تاہم اس عمل سے ان فلسفوں کی نظری و عملی جہات میں تشکیک و ابہام کا ابھر نالازمی ہے۔ روشن خیالی افکار و نظریات کی مربوط و منظم ترتیب کا نام ہے، جبکہ آزاد خیالی، خام خیالی ۔ زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ نظریات و افکار کو اگر تعقل، تاریخ اور سماج کی کسوٹی پر جانچنے ہی سے ان کے خصائص اور عیوب کی تفہیم ممکن ہوتی ہے۔ سماجی عمل کی نظریے تک تخفیف صرف قدامت پند فلسفوں اور مابعد الطبیعات کا خاصہ ہے۔ فلسفے کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کوئی تصور خواہ کتنا ہی تجریدی کیوں نہ ہو، یا اس کے قبل تجربی موجود ہونے کا دعوی ہی کیوں نہ کیا جائے ،اس کو اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے بعد از تجر بہ حقائق سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ یعنی کوئی بھی تصور خارجی دنیا میں موجود کسی بھی معروض (Object) سے آزاد رہ کر نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہم آہنگی یا تطابق پیدا کرنے سے ہی اپنی سچائی کا کوئی جواز پیدا کرتا ہے، بصورت دیگر اسے محض ایک آزاد خیالی یا خام خیالی کے طور پر ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس نوع کی آزاد خیالی پر یقین رکھنے اور انہیات کے تجریدی تصورات پر ایمان میں کچھ خاص فرق نہیں ہوتا ۔ سچائی وہی ہوتی ہے جو عقلی اور تاریخی حقائق سے پھوٹے اور تاریخ اور عقل پر اثر پذیر رہ کر ان کی توسیع کا باعث بنتی رہے۔ آزاد خیالوں کی یہ دلیل کہ وہ کسی ایک نظریے پر کمربستہ نہیں رہتے، بلکہ وہ مختلف نظریوں سے افکار و خیالات مجتمع کرتے ہیں، بالکل ناقص ہے، کیونکہ خیالات کہیں سے بھی اکٹھے کیے جائیں، اگر ان کی ترتیب و تنظیم منطقی ہے، تو تعقلی کہلائے گی ، ورنہ وہ اسی عدم تعقلی کا شکار ہو جائیں گے کہ جس کا طعنہ وہ اپنے مخالفین کو دیتے ہیں۔ پاکستان میں آزاد خیال ہمہ وقت جمہوریت کے حق میں بولتے ہیں، اس کے نقائص کو سامنے لانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ عوام کو در پیش بھیا نک مسائل کا ذمہ دار جمہوری طریقہ کار کی بجائے انہیاتی آئیڈیالوجی کو ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت کے تحت لوگ جو زندگی بسر کر رہے ہیں وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو کر رہ گئی ہے، مگر اس کے باوجود اس طریقہ کار کو افضل و برتر تصور کیا جاتا ہے۔ اس بنیادی لکھتے پر آزاد خیال اتنے بھی رجعت پسند ہو جاتے ہیں جتنا وہ اپنے مخالف ملاؤں کو قرار دیتے ہیں۔ تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ آزاد خیالی کا مفہوم الہیات کی زد کے طور پر ابھرا تھا۔ یعنی فلسفیوں کا وہ طبقہ جو یہ سمجھتا تھا کہ چونکہ مذہب ہرلمحہ متغیر سماجی ، سیاسی اور معاشی سچائیوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، اس لیے اس کے اصول وقواعد کو تسلیم کرنا سماجی ارتقا کے راستے میں مزاحم ہونا ہے۔ اسی تصور کے تحت مختلف قسم کے فلسفے سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ فلسفے چونکہ ماورائے عقل کسی سچائی کو تسلیم نہیں کرتے ، اس لیے ان کے بنیاد گزاروں نے اپنے فلسفوں کو روشن خیالی" کا نام دیا اور دوسروں کو رجعت پسند کہنے لگے ۔ تاہم آزاد خیالی کے مفہوم کو صرف مذہبی حوالے ہی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ روشن خیالی فلسفوں میں کوئی ایسی خصوصیت موجود نہیں ہے کہ جسے آزاد خیالی کہا جاسکے، یعنی ایسا خیال جو ہر معروض سے آزاد ہو۔ اگر کبھی کوئی ایسا خیال تشکیل پا گیا تو یہ خیال پرستی کی فتح ہوگی اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ الاہیات کے مبلغوں کو ہوگا ، آزاد خیالوں کو نہیں۔ خیال کسی بھی معروض پر منعکس نہ ہونے کا خیال، باطل محض ہے۔ اور خارجی دنیا سے ربط خیال کی نفی ہے۔ نتیجہ یہی دکھتا ہے کہ آزاد خیالی نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں ہے۔ آزاد خیال لوگ جب الہیات کا انکار کرتے ہیں تو وہ خود کو عقلیت اور منطق کے اصولوں کا پیروکار بتاتے ہیں۔ تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو عقلیت کا الہیات کے ساتھ نفی و اثبات کا تعلق رہا ہے۔
ب) مساوات کا مطلب کیا ہے؟
مساوات کا مطلب یہ ہے کہ قانونی حیثیت ہو یا سیاسی ہو یا شخصی ہو سب کو برابری دی جائے مثلاً : مرد یا عورت کو منفی اختلاف کی وجہ سے حقوق و مراعات و مواقع و امکانات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
اسی کی ایک شاخ جمہوریت ہے کہ ہر بندہ کا سماجی حق یکساں ہے تو ایک جاہل شخص ہے اور ایک پڑھا لکھا، دونوں کا ووٹ برابر ہے۔ اسی کی طرف شاعر مشرق نے اشارہ کیا: اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا ہ کرتے ، تولا نہیں کرتے۔
لبرل ازم کے نقصانات
سیکولر ازم اور لبرل ازم نتیجتاً یکساں ہیں لہذا جس بر بریت کا ذکر ہو چکا وہ لبرل ازم کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے۔ لبرل ازم کا سب سے بڑا نقصان یہ پہنچا کہ ذاتی احساس ذمہ داری کا تصور ختم ہو گیا، اب انسان اپنے عزیز و اقارب اور اہل وعیال کی ذمہ داری تو کجا اپنی ذمہ داری سے بھی دست بردار ہو گیا چونکہ جب انسان کو کھلی آزادی دے دی گئی تو اس نے نفس پرستی کو ترجیح دی چنانچہ دھوکا دہی ، مفاد پرستی بود، شراب نوشی ، بے حیائی ، ہم جنس پرستی جگہ جگہ عام ہوگئی، خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا یہاں تک کہ لوگوں نے رشتوں کی پہچان بھی ختم کر دی۔
مسلم معاشرے پر لبرل ازم کے اثرات
بہت بڑے بڑے دہریے ہیں جو دنیا میں اب بھی موجود ہیں اور بلا کسی خون و شرم کے یہ بات کرتے ہیں کہ ” بہن بھائی کے نکاح کرنے میں کوئی خرابی نہیں" اور انہی لبرلز میں سے ہمارے پاکستان کی ایک عورت بینا سرور ہے اس نے یہاں تک کہا کہ آزادی ہونی چاہئے کہ ہم کسی کے مذہب کی اہانت کریں یا کسی کے خدا کی اہانت کریں یا کسی کے رسول کی اہانت کریں اس کے اوپر کون پابندی لگانے والا ہے؟"
معاشتی و اخلاقی لبرل ازم کے اثرات
لبرل ازم کے اثرات اتنے گندے ہیں کہ کوئی کسی کی عزت اچھالے تو کہتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے، جب یہ کسی مسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا بھی دیکھ لیں تو اس مسلمان کو اعتدال پسند کہتے ہیں۔ فرانس کے شر پسند چارلی ہبڈو ( charlie Hebdo) آزادی اظہار رائے کے نام پر ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مواد شائع کرنے میں مصروف ہے لیکن2008ء میں اس نے اپنے مدیر کو صرف اس لئے نکال دیا کہ وہ یہودیوں کا دشمن تھا۔
سماج اور سیاست میں لبرل ازم کے اثرات
سماج اور سیاست میں لبرل ازم کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سیکولر ازم اور جدید فکری رجحانات کا جائزہ لیں۔ لبرل ازم کے دلائل عموماً سائنسی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم سائنس کے دائرۂ اثر کو سمجھ لیں تو یہ شبہات آسانی سے دور ہو جاتے ہیں۔
سائنس کیا ہے؟
سائنس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مشاہدات اور تجربات کے ذریعے حقائق کو جانا جائے۔ تجربات اور مشاہدات سے نظریات (theories) قائم ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ترقی کر کے قوانین (laws) کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر یہ نظریات ومشاہدات بھی ہمیشہ کمزور اور متغیر رہتے ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دو افراد کے مشاہدات میں فرق آسکتا ہے، اور ایک ہی شخص کے تجربات بھی وقت کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر تین برتنوں میں پانی رکھا جائے ایک گرم، ایک ٹھنڈا اور ایک معتدل اور لوگ اسے چھو کر کہیں کہ پانی گرم ہے یا ٹھنڈا، تو حقیقت یہ ہے کہ مشاہدہ کمزور دلیل ہے۔
اسلام اور سائنس کا تعلق:
1. مسلمانوں کو سائنس سے دشمنی نہیں ہے، لیکن:
2. قرآن و حدیث سو فیصد یقینی علم دیتے ہیں، باقی علوم کو ثانوی حیثیت دی جائے۔
3. مذہب کی بنیاد وحی ہے جبکہ سائنس مشاہدات و تجربات پر۔
4. مذہب مافوق الفطرت (غیب، روح، قیامت وغیرہ) سے متعلق ہے جبکہ سائنس فطرت سے۔
5. جہاں سائنس انسان کو حیران کر دے، وہاں مذہب رہنمائی اور سہارا فراہم کرتا ہے۔
اس طرح لبرل ازم اور سیکولر ازم کے دلائل کو سمجھ کر، ہم اپنے عقائد کی حفاظت کر سکتے ہیں اور جدید فتنوں سے بچ سکتے ہیں۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!