اسلامی تعلیمات کی بنیاد ’’عقیدہ‘‘پر ہے۔ انسان کے قول و عمل کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب اس کا عقیدہ درست ہو۔ اسلام میں عقیدہ دراصل وہ ایمان و یقین ہے جو دل میں راسخ ہو جائے اور شک و تردد سے پاک ہو۔ قرآن و سنت نے اسلامی عقائد کی وضاحت کر کے یہ اصول دیا کہ اسلام کا استحکام صرف درست اسلامی عقیدہ سے ممکن ہے۔ چونکہ عقیدہ اسلام کی روح اور ایمان کی بنیاد ہے۔
اسلام میں عقیدہ کا لغوی معنی
عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے، جس کے معانی ہیں کسی چیز کو باندھنا ،جیسے کہا جاتا ہے "اعتقدت کذا" (میں ایسا اعتقاد رکھتا ہوں) یعنی میں نے اسے (اس عقیدے کو) اپنے دل اور ضمیر سے باندھ لیا ہے۔
اسلام میں عقیدہ کا اصطلاحی معنی
عقیدہ اس اعتقاد کو کہا جاتا ہے جو انسان اپنے دل میں کسی چیز کے بارے میں رکھتا ہے، کہا جاتا ہے : "عقیدة حسنة" (اچھا عقیدہ)، یعنی : "سالمة من الشک" (شک سے پاک عقیدہ)، عقیدہ در حقیقت دل کے یقین کرنے کے عمل کا نام ہے اور وہ ہے دل کا کسی بات پر ایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا۔
ایمان کے اثرات اور اہمیت
صحیح عقیدہ انسان کے کردار، اخلاق، عبادت اور زندگی کے ہر پہلو کو نکھارتا ہے۔ عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔ عقیدہ درست ہو تو اعمال سنور جاتے ہیں، ورنہ سب برباد ہو جاتے ہیں۔
اسلام میں عقیدہ کی اہمیت
اسلام میں عقیدہ محض نظری فلسفہ نہیں بلکہ ایمان کی روح ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں عقیدہ توحید، رسالت، آخرت اور تقدیر کا درست تصور انسان کو راہ ہدایت پر رکھتا ہے۔
عقیدہ سے متعلق بنیادی سوالات و جوابات
سوال: اسلام میں عقیدہ کیا ہے؟۔
جواب: اسلام میں عقیدہ وہ یقینِ قلبی ہے جو شک سے پاک ہو اور ایمان کی بنیاد بنے۔
سوال: عقیدہ اور ایمان میں کیا فرق ہے؟
جواب: عقیدہ دل کا یقین ہے جبکہ ایمان اس یقین کا عملی اظہار۔
سوال: ختم نبوت کا عقیدہ کیوں ضروری ہے؟
جواب: کیونکہ یہ قرآن سے ثابت اور ایمان کا جزو لازم ہے۔
اسلام میں عقیدہ خود ساختہ نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے۔ ان بنیادی عقائد میں شامل ہیں:
1- اللہ پر ایمان
2- فرشتوں پر ایمان
3- کتابوں پر ایمان
4- رسولوں پر ایمان
5- یومِ آخرت پر ایمان
6- تقدیر پر ایمان
یہ چھ اجزاء ایمان کی بنیاد ہیں جنہیں “ارکان ایمان” کہا جاتا ہے۔
اللہ پر ایمان (اسلام میں عقیدہ توحید کیا ہے؟)
اللہ پاک کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ : اللہ عزوجل ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں ، وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ واجب الوجود ہے یعنی اس کا وجود ضروری اور تمدم ( نہ ہونا ) محال ہے ، وہ قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، آزلی کے بھی یہی معنی ہیں، وہ باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اس کو ابدی بھی کہتے ہیں ، وہ بے پرواہ ہے بے نیاز ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اس کا محتاج ہے، جس طرح اُس کی ذات قدیم، ازلی ابدی ہے ، صفات بھی قدیم ، ازلی ابدی ہیں۔ اُس کی ذات وصفات کے سوا سب چیزیں حادث ہیں یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہو ئیں ، وہ نہ کسی کا باپ ہے ، نہ بیٹا اور نہ اُس کے لیے ہوئی، جو اسے باپ یا بینا بتائے یا اُس کے لیے بیوی ثابت کرے کا فر ہے ، وہی ہر شے کا خالق ہے ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں، حقیقتہ روزی پہنچانے والا وہی ہے ، ملائکہ وغیر ہم سب وسیلہ ہیں، اللہ تعالی جسم، جہت ، مکان، شکل و صورت اور حرکت و سکون سب سے پاک ہے ، وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُس چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جہل، بے حیائی و غیر با عیوب اُس پر قطعاً محال ہیں۔( سورة اخلاص، آیت 1 ، سورة الأنعام، آيت 163 ،الفتاوى الرضوية، ج 15، ص 320)
دیدار الہی عزوجل
دنیا میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لئے بیداری میں چشم سرسے اللہ تعالٰی کا دیدار ممکن نہیں، جو اس کا دعوی کرے وہ کافر ہے۔ (فتاوی حدیثیہ، مطلبی رؤیہ اللہ تعالی فی الدنیا، ص 200 ،الفتاوى الحديثية مطلب فى رؤية الله تعالی فی الدنیا، ص 200)
جمہور اہل سنت کے نزدیک معراج کی رات حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سر کی آنکھوں سے اللہ عقیدہ: خواب میں دیدار باری تعالی ہو سکتا ہے، اولیاء سے ثابت ہے ، ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ، خواب میں سو بار زیارت ہوئی۔
سوال: کیا جنت میں مؤمنین کو اللہ پاک کا دیدار ہو گا یا نہیں؟
جواب: جنت میں مومنین کو اللہ تعالٰی کا دیدار ہو گا۔ (منع الروض الأزير ، ص 83) (فقہ اکبر، ص 83)
انبیاء علیہم السلام پر ایمان (اسلام میں عقیدہ رسالت کیا ہے؟)
اسلامی تعلیمات کے نزدیک نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس پر وحی نازل ہو، اور رسول وہ ہے جو تبلیغ کا حکم پائے۔
لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ (البقرہ: 285)
ترجمہ: یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے ۔
انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام شرک و کفر اور ہر ایسے امر سے جو لوگوں کے لیے باعث نفرت ہو ، جیسے جھوٹ ، خیانت اور جہالت و غیر با بری صفات سے قبل نبوت اور بعد نبوت بالاجماع معصوم ہیں، اور اسی طرح ایسے افعال سے جو وجاہت اور مروت کے خلاف ہیں قبل نبوت اور بعد نبوت بالا جماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمید صغائر (قصداً صغیرہ گناہ کرنے) سے بھی قبل نبوت اور بعد نبوت معصوم ہیں، اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہم السلام پر بندوں کے لیے جتنے احکام نازل فرمائے اُنھوں نے وہ سب پہنچادیے، جو یہ کہے کہ کسی حکم کو کسی نبی نے چھپارکھا، تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے نہ پہنچایا ، کافر ہے۔ احکام تبلیغیہ میں انبیاء سے سہو و نسیان محال ہے، اُن کے جسم کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے متنفر ہوتا ہے ، پاک ہونا ضروری ہے۔ اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو اپنے عیوب پر اطلاع دی، مگر یہ علم غیب کہ ان کو ہے اللہ عزوجل کے دیے سے ہے، لہذا ان کا علم عطائی ہوا ۔ انبیائے کرام، تمام مخلوق یہاں تک کہ رُسل ملائکہ سے بھی افضل ہیں۔ ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا، جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔ نبی کی تعظیم فرض عین بلکہ اصل تمام فرائض ہے، کسی نبی کی اونی تو ہین یا تکذیب ، کفر ہے۔ تمام انبیاء اللہ عزوجل کے حضور عظیم وجاہت و عزت والے ہیں ان کو اللہ تعالٰی کے نزدیک معاذ اللہ چوہڑے چمار کی مثل کہنا کھلی گستاخی اور کلمہ کفر ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زیادہ ہے، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اس کے لاکھویں حصہ کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔
عقیدہ: محال ( ناممکن ہے کہ کوئی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل ہو ، جو کسی صفت خاصہ میں کسی کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا مثل بتائے ، گمراہ ہے یا کافر۔(نسيم الرياض، ج 6، ص232)
کیا انبیاء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں؟
جی ہاں! انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں اسی طرح بحیات حقیقی زندہ ہیں، جیسے دنیا میں تھے ، کھاتے پیتے ہیں، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیق وعدہ الہیہ کے لیے ایک آن کو اُن پر موت طاری ہوئی ، پھر بدستور زندہ ہو گئے ، ان کی حیات، حیات شہدا سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے فلہذا شہید کا ترکہ تقسیم ہو گا، اس کی بیوی بعد عدت نکاح کر سکتی ہے بخلاف امیاء کے ، کہ وہاں یہ جائز نہیں۔ (رواہ ابن ماجہ، کتاب الجنائز، الحدیث 1637)
کیا نبوت انبیاء کے لئے خاص ہے؟
جی ہاں! نبوت، انبیاء کے لیے خاص ہے، جو اسے کسی غیر نبی کے لیے مانے کافر ہے۔ ولی کے دل میں بعض وقت سوتے یا جاگتے میں کوئی بات القاء ہوتی ہے، اُس کو الہام کہتے ہیں، اور وحی شیطانی کہ القا من جانب شیطان ہو ، یہ کا ہن، ساحر اور دیگر کفار وفاق کے لیے ہوتی ہے۔( المعتقد المنتقد، ص 105،المرقاة، كتاب العلم ، ج 1 ، ص 112)
کیا اَنبیائے کرام علیہم السلام سے گناہ ممکن ہیں؟
جی نہیں! نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور فرشتے کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی ہے۔(منح الروض الأزير ، ص 56 )
عصمت انبیاء کا معنی کیا ہے؟
عقیدہ: عصمت انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدور گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیاء کہ اللہ عزو جل اُنھیں محفوظ رکھتا ہے، ان سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعا محال بھی نہیں۔ (نسيم الرياض في شرح الشفاء، الباب الأول، ج 4، ص 144,193)
اسلام میں عقیدہ ختم نبوت سے کیا مراد ہے؟
عقیدہ ختم نبوت سے مراد یہ ماننا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلۂ نبوت ختم ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یا اس کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب: 40)
ترجمہ: ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔
جو شخص ختم نبوت کو نہ مانے اس کے متعلق حکم کیا ہے ؟
جو شخص ختم نبوت کو نہ مانے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا قائل ہو، وہ کافر ہے۔
آسمانی کتابوں پر ایمان
عقیدہ: بہت سے نبیوں پر اللہ تعالی نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اتاریں، ان میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں:
(1) قرآن عظیم کہ سب سے افضل کتاب ہے ، سب سے افضل رسول حضور پر نور احمد مجتبی محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔
(2) تورات، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔
(3) زبور، حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔
(4) انجیل، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔
عقیدہ: سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام اللہ ہیں، ان میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے۔ مگر انکی کتابوں کی حفاظت اللہ تعالی نے امت کے سپرد کی تھی، اُن سے اُس کا حفظ نہ ہو سکا، کلام الہی جیسا اترا تھا اُن کے ہاتھوں میں ویسا باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تحریفیں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابق گھٹا بڑھادیا۔(تفسير الخازن، ج 1، ص 225 14 )۔
لہذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کتاب کے مطابق ہے، ہم اُس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تحریفات سے ہے اور اگر موافقت، مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب ، بلکہ یوں کہیں کہ
ترجمہ: اللہ عزوجل اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔( العنكبوت: 46)۔
عقیدہ: چونکہ یہ دین اسلام ہمیشہ رہنے والا ہے، لہذا قرآن عظیم کی حفاظت اللہ عزو جل نے اپنے ذمہ رکھی، فرماتا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) (الحجر: 9)
ترجمہ: بے شک ہم نے قرآن اُتارا اور بے شک ہم اُس کے ضرور اسکی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
لہذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سور تمھیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھادیا، یا بدل دیا، قطعا کافر ہے، کہ اس نے اس آیت کا انکار کیا جو ہم نے ابھی لکھی۔
فرشتوں پر ایمان
عقیدہ: فرشتے اجسام نوری ہیں، یہ نہ مرد ہیں، نہ عورت اللہ تعالی نے ان کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں، کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں۔ وہی کرتے ہیں جو حکم الہی ہے، خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے ، نہ قصداً نہ ہوا، نہ خطا، وہ اللہ عزو جل کے معصوم بندے ہیں، ہر قسم کے صغائر و کبائر سے پاک ہیں۔قرآن مجید فرقان حمید میں ہے:
لَا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (التحریم: 6)
ترجمہ: اور بولے کہ اے وہ جن پر قرآن اترا بےشک تم مجنون ہو ۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!