نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطائی اختیارات
اسلام ایک ایسا کامل نظام حیات ہے جس کی بنیادیں اللہ ربّ العزت کے فرمان اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ پر قائم ہیں۔ قرآن کریم نے جہاں اللہ پاک کو خالق و مالک کائنات قرار دیا ہے، وہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبلغ احکام ہی نہیں بلکہ صاحب اختیار نبی بھی قرار دیا ہے جن کے فیصلے اللہ کے فیصلے کہلاتے ہیں اور جن کی اطاعت ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ قطعی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار اختیارات، فضائل، خصائص اور تشریعی قوت عطا فرمائی، جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیتے ہیں، منع فرماتے ہیں، جائز و ناجائز کا فیصلہ فرماتے ہیں، مستثنیٰ فرماتے ہیں اور نزول وحی کے بغیر بھی حکم نافذ فرماتے ہیں۔ جن کا تذکرہ قرآن پاک اور حدیث میں بار بار ملتا ہے۔ قرآن کریم میں عطائی اختیارات کے دلائل
اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ
ترجمہ کنزالایمان:بلکہ اس کے ہاتھ کشادہ ہیں۔( المائدہ:64)
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ-وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
ترجمہ کنزالایمان:ہم سب کو مدددیتے ہیں اُن کوبھی اور ان کو بھی تمھارے رب کی عطا سے اور تمہارے رب کی عطا پر روک نہیں۔ (بنی اسرائیل: 20)
اللہ پاک نے مالک و مختار نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوکتناعطافرمایااس کی کوئی حدنہیں۔ یعنی عطائیں لامحدود ہیں۔ اسی لامحدود عطا میں سے ایک عظیم عطا اختیارمصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہے۔ فضائل واحکام شریعت میں اختیارات کی وسعت آیت کوثر کی وضاحت
اللہ پاک ارشادفرماتاہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ
ترجمہ کنزالایمان:اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمارخوبیاں عطا فرمائیں۔(الکوثر: 1)
مفسرشہیرصدرالافاضل حضرت علامہ مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:
یعنی ،فضا ئل کثیرہ عنایت کر کے تمام خلق پر افضل کیا ،حسن ظاہر بھی دیا اور حسن باطن بھی ،نسبِ عالی بھی،نبوت بھی،کتاب بھی ،حکمت بھی ،علم بھی ،شفاعت بھی،حوض کو ثر بھی،مقامِ محمود بھی ،کثرتِ اُمت بھی ،اعدائے دین پر غلبہ بھی ،کثرت فتوح بھی ،اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں جن کی نہایت نہیں ۔ (خزائن العرفان)
اسی طرح اللہ عزوجل نے حضورنبی اکرم ،نورِمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوشریعت کے احکام میں بھی اختیارعطافرمایاہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا مؤقف
سیدی اعلیٰ حضرت، امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:
اَئمہ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکام شریعت حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سپردہیں، جوبات چاہیں واجب کر دیں جوچاہیں ناجائزکر دیں،جس چیزیاجس شخص کوجس حکم سے چاہیں مستثنیٰ فرمادیں۔ (فتاوی رضویہ،30/ 518)۔ محدثین کے ذکر کردہ واقعات
امام جلال الدین سیوطی اور امام احمدبن محمدقسطلانی رحمۃ اللہ علیہما نے وہ واقعات ذکر کئے ہیں جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر وحی کے اپنی طرف سے حکم صادر فرمایا اور وہی حکم شریعت بن گیا مثلاً:
-
بکری کے چھ ماہ کے بچہ کی قربانی جائزقرار دینا۔ -
صحابی رسول کے لئے قرآن سکھانے کو مہر مقرر کرنا۔ -
حضرت سیدنا خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گواہی دو مردوں کے قائم مقام قرار دینا۔ -
ایک شخص کے لئے روزے کاکفارہ خودہی کھا لینا جائز قرار دینا۔ -
عدت وفات کے سوگ سے استثناء کرنا -
یہ سب احکام شریعت میں اختیارات مصطفی کی روشن دلیلیں ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو بھی حکم اور فیصلہ فرما دیں، وہی حرف آخر ہے، کیونکہ وہ دراصل حکم خدا ہے۔ اس میں نہ تبدیلی کی گنجائش ہے اور نہ ہی لیت و لعل کی۔ ایمان کی شرط یہی ہے کہ بندۂ مومن محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم اور ہر فیصلے کو بلا چوں و چرا تسلیم کرے۔ اسی حقیقت کو قرآن یوں بیان فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ (الأنفال: 24)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ ورسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی ۔ اللہ اور رسول کا بلانا ایک ہی ہے
اس آیت مقدسہ میں غور فرمائیے! پہلے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کا ذکر علیحدہ علیحدہ فرمایا، لیکن جب ’’پکارنے‘‘ کا صیغہ لایا تو وہ واحد میں لایا گیا : ’’اِذَا دَعَاكُمْ‘‘۔ گویا یہ اعلان ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلانا الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔
یعنی اللہ پاک کا بلانا، دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلانا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت دراصل اللہ پاک کی دعوت ہے۔ یہی ایمان کی اصل اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بلند اظہار ہے۔
اسی لئے قرآن نے پارہ5سورۃالنسآء کی آیت نمبر 65 میں ارشاد فرمایا:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
ترجمۂ کنز الایمان:تو اے محبوب تمہارے رَبّ کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔
کائنات کے فیصلے حضور کے اختیار میں صدر الشریعہ کا مؤقف
صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، اللہ( پاک) کے نائب مطلق ہیں، تمام جہان، حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے تحت تصرف (یعنی اختیار میں )کر دیا گیا، جو چاہیں کریں ، جسے جو چاہیں دیں ، جس سے جو چاہیں واپس لیں،تمام جہان میں ان کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں ، تمام جہان ان کا محکوم (یعنی حکم کا پابند)ہے اور وہ اپنے رب(پاک) کے سوا کسی کے محکوم نہیں۔
تمام آدمیوں کے مالک ہیں،جو انہیں اپنا مالک نہ جانے حلاوت سنّت(یعنی سنّت کی مٹھاس) سے محروم رہے، تمام زمین ان کی ملک ہے، تمام جنّت ان کی جاگیر ہے، مَلَکُوْتُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض(یعنی آسمان و زمین کی سَلْطَنَتیں)حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے زیر ِفرمان، جنّت و نار کی کُنْجِیاں دستِ اَقْدَس میں دے دی گئیں ، رِزْق و خیر اور ہر قِسَم کی عطائیں،حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہی کے دربار سے تَقْسِیْم ہوتی ہیں،دُنیا و آخرت، حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی عطا کا ایک حصہ ہے۔شریعت کے احکام حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے قبضے میں کر دئیے گئے کہ جس پر جو چاہیں حرام فرمادیں اور جس کے لئے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نائب خدا ہیں جن کے فیصلے آخری اور قطعی ہیں۔ معاملات نکاح میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختیار حضرت زید بن حارثہ اور حضرت زینب بنت جحش کا نکاح
حضور سیّد المرسَلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح اسی اختیار نبوی کی عظیم مثال ہے۔
اللہ پاک نے آیت کریمہ نازل کر کے اعلان فرما دیا: وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا (الاحزاب: 36)
ترجمہ کنز الایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔ (کنز الایمان)
اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ : ذاتی، گھریلو، معاشی، معاشرتی الغرض زندگی کے ہر معاملے میں حکم رسول حرف آخر ہے۔
بعد ازاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا حرم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہو کر ام المومنین بنیں۔ پانی کے جھگڑے میں نبوی فیصلہ
حضرت زبیر رضی اللہ عنہا اور ایک انصاری کے درمیان تنازعہ (جھگڑا) ہو ا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے زبیر (رضی اللہ عنہ) پہلے تم اپنے باغ کو سیراب کر لیا کرو پھر اپنے انصاری بھائی کے باغ میں پانی چھوڑ دیا کرو۔
یہ اختیار مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن اور واضح دلیل ہے۔ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کو نہ مانے وہ مومن نہیں یہودی و منافق کا واقعہ
ایک منافق اور یہودی کے مابین کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ۔ دونوں معاملہ سلجھانے اور فیصلہ کروانے کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دونوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کے حق کے فیصلہ فرمایا۔
منافق راضی نہ ہوا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: جو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کو نہ مانے اس کا فیصلہ عمر کی تلوار کرے گی ۔اسی لئے آیت نازل ہوئی:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء: 65)
ترجمۂ کنز الایمان:تو اے محبوب تمہارے رَبّ کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔
یہ فیصلہ حجیت حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اختیارات نبوی شریعت کا بنیادی اصول سنت کی حجیت
اسلامی قانون کا بنیادی قائدہ ہے: سنّت، شریعت کا مستقل اور قطعی ماخذ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا حکم واجب الاتباع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو احکام شریعت کا اختیار اللہ پاک نے عطا فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ:
-
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلال بھی فرما سکتے ہیں۔ -
حرام بھی فرما سکتے ہیں۔ -
کسی پر حکم نافذ بھی کر سکتے ہیں۔ -
اور جسے چاہیں استثناء بھی دے سکتے ہیں۔ -
یہ سب علمی طور پرحجیت سنّت کہلاتا ہے۔
ہر باشعور مسلمان کا ایمان ہے کہ
-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کے محبوب ہیں۔ -
اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظیم اختیارات عطا فرمائے -
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے آخری اور دین میں حجت ہیں -
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔
-
سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعت کا مستقل اور قطعی ماخذ ہے۔ -
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرعی احکام میں اختیار اللہ نے عطا فرمایا ہے۔
جی ہاں! قرآن و حدیث کے واضح دلائل بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریعی اختیارات عطا فرمائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مسلمانوں کے لیے حجتِ شرعی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلوں کی اطاعت کیوں لازم ہے؟
قرآن مجید سورہ النساء: 65 میں حکم دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کیے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
کیا سنت، قرآن کے علاوہ شرعی دلیل ہے؟
جی ہاں! سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی طرح شریعت کا بنیادی ماخذ ہے، اور اس کی حجیت پر پوری امت کا اجماع ہے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلال و حرام کا اختیار تھا؟ جی ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کے اذن سے احکام بیان اور نافذ کرنے کا اختیار تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی شرعی احکام قولاً و فعلاً مقرر فرمائے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت، اطاعت الٰہی ہے؟ جی ہاں! قرآن فرماتا ہے:
’’
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ‘‘ یعنی ،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ پاک کی اطاعت ہے۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!