عبادات اور معجزاتی اختیارات مصطفٰی

اس مضمون میں نبی کریم ﷺ کے شرعی، دینی اور معجزاتی اختیارات کا ایسا جامع و مدلل مطالعہ پیش کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو احکامِ شرعیہ میں تخفیف، تخصیص، اجازت اور رخصت دینے کا خصوصی مقام عطا فرمایا۔ عبادات، گواہی، عدت، ریشم کے حکم، جنابت، بیعت، عذاب کے اٹھ جانے، نعمتوں کی تقسیم اور معجزاتی تصرفات جیسے متعدد پہلو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔ مضمون اس حقیقت کو کھول کر سامنے لاتا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کا اختیار دراصل الٰہی مشیت کا ظہور ہے، اور شریعت کی روح اطاعت و محبتِ مصطفی ﷺ ہی میں پوری ہوتی ہے۔

November 28, 2025

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثیر احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اختیار بھی عطا فرمایا ہے کہ آپ کسی عام حکم میں سے جس کو چاہیں الگ کر دیں۔ احادیث میں موجود کثیر مثالوں میں سے چند ملاحظہ ہوں۔

نماز کا عام حکم

فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : بے شک اللہ پاک نے اپنے بندوں پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔( بخاری ، 1 / 471 ، حدیث : 1395)

دو نمازوں کی اجازت

ربِّ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس شرط پر اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی کہ وہ روزانہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی یہ شرط قبول فرما لی۔ یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک کی جانب سے شرعی احکام میں تخفیف، تخصیص اور رخصت دینے کا خصوصی اختیار عطا ہوا ہے۔(مسند احمد، 7/283، حدیث: 20309)

حالت نماز میں حکم مصطفٰی کی تعمیل

حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ نماز ادا کر رہے تھے کہ اسی دوران سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آواز دی۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے فوراً نماز مختصر کر کے حاضر خدمت ہونے کی سعادت حاصل کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے سعید! تم نے دیر کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نماز ادا کر رہا تھا۔

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ (الانفال: 24)

ترجمہ: اے ایمان والو! لبیک کہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر جب وہ رسول بلائے تمہیں اس امر کی طرف جو زندہ کرتا ہے تمہیں۔

نماز حکم مصطفی کی تعمیل سے نہیں ٹوٹتی چاہے رخ قبلہ سے ہٹ جائے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکارا تو وہ نماز میں تھے۔ انہوں نے صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا لیکن جواب نہ دیا، پھر نماز مختصر کر کے حاضر ہوئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اے اُبی! جب میں نے بلایا تو جواب دینے سے کیا چیز مانع تھی؟‘‘

انہوں نے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نماز میں تھا۔‘‘

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ (الانفال: 24)

ترجمہ: اے ایمان والو! لبیک کہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر جب وہ رسول بلائے تمہیں اس امر کی طرف جو زندہ کرتا ہے تمہیں۔ کیا اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟

جی نہیں! اگرچہ نماز چھوڑ دے، قبلہ سے رخ پھیر لے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرے، حکم مصطفیٰ کی تعمیل میں کام بھی کر لے تب بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔

کیوں؟

کیونکہ وہ شخص در حقیقت اطاعت رسول میں ہی مصروف ہے۔

امام قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں:

  • اگرچہ نمازی کا سینہ قبلہ سے ہٹ جائے مگر وہ رخ اس ذات کی طرف پھرتا ہے جو قبلہ کا بھی قبلہ ہے۔

  • اگرچہ نماز میں گفتگو نماز کو باطل کرتی ہےمگر وہ گفتگو کس سے تھی؟جس ذات کو نماز میں سلام کرنا بھی واجب ہے: ’’السلام عليك أيها النبي‘‘۔

  • نماز چھوڑ کر خدمت مصطفیٰ میں حاضر ہونا واجب ہے۔

اگر کوئی آدمی فرض نماز یا نفل نماز ادا کر رہا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آواز دی اس پر واجب ہے کہ وہ نماز چھوڑ دے اور خدمت مصطفی میں حاضر ہو جائے۔(مشکوۃ)

نماز کی مقبولیت محبت رسول کے بغیر ممکن نہیں

معلوم ہوا کہ

  • وہی نماز اللہ پاک کی بارگاہ میں قابل قبول ہے، جو اطاعت رسول میں ادا کی گئی ہو، محبت رسول میں پڑھی گئی ہے۔

  • اللہ پاک نے دونوں عالم کے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو لا محدود اختیارات کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اختیار دیا ہے کہ وہ دوران نماز بھی نمازی کو اپنے پاس بلا سکتے اور کام بھی بتا سکتے ہیں ۔

  • سب سے بڑے کرم کی بات یہ ہے کہ وہ کام کرتے ہوئے بھی نماز میں ہے اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی ۔

  • حقیقت یہی ہے کہ شریعت مصطفی ہی شریعت الہی ہے۔

  • عبادت کی روح محبت رسول ہے۔

گواہی کا عام حکم

اللہ پاک کا فرمان ہے :

وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ

ترجمۂ کنزالعرفان : اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنالو۔( پ3البقرۃ : 282)

ایک کی گواہی دو کے برابر قرار دے دی

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالشہادتین حضرت سیدنا خزیمہ بن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ کی اکیلے کی گواہی ہمیشہ کےلئے دو مَردوں کی گواہی کے برابر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

یعنی، خزیمہ جس کے حق میں یا جس کے خلاف گواہی دیں تو ایک ان ہی کی گواہی کافی ہے۔( معجم کبیر ، 4 / 87 ، حدیث : 3730)

ریشم کا عام حکم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سیدھے ہاتھ میں ریشم اور اُلٹے ہاتھ میں سونا لے کر ارشاد فرمایا : بے شک یہ دونوں چیزیں میری اُمّت کے مَردوں پر حرام ہیں۔( ابوداؤد ، 4 / 71 ، حدیث : 4057)

ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت

حضرت سیدنا زبیر بن عوام اور حضرت سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہماکے بدن میں خُشک خارش تھی۔ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی۔( بخاری ، 4 / 61 ، حدیث : 5839)

سونے کا عام حکم

حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔( المجالسۃ وجواہر العلم ، 3 / 283 ، حدیث : 3639)

سونے کی انگوٹھی پہنادی

حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہوں نے بیان کیا : ہم رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے۔ آخر میں جب صرف یہ انگوٹھی باقی رہ گئی تو نظر مبارک اٹھاکر حاضرین کو ملاحظہ فرمایا اور نگاہیں جھکالیں ، دوسری بار بھی نظر یں اٹھاکر دیکھا اور نگاہ نیچی کرلی ، تیسری بار پھر نظررحمت ڈالی اورفرمایا : اے براء! میں قریب حاضر ہوکر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بیٹھ گیا۔ انگوٹھی لے کر میری کلائی تھامی اور ارشاد فرمایا : اللہ و رسول تمہیں جو پہناتے ہیں اسے پہن لو۔( مسند احمد ، 6 / 427 ، حدیث : 18625)

عدت کا عام حکم

(شوہر کی)موت کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔( بہار شریعت ، 2 / 237)

اللہ پاک کا فرمان ہے :

وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا

ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔( پ2 ، البقرۃ : 234)

تین دن کی عدّت

حضرت اسماء بنتِ عمَیس رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت سیّدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے ارشاد فرمایا: تین دن تک بناؤ سنگھار سے الگ رہو ، پھر جو چاہو کرو۔( جامع الاحادیث ، 4 / 89 ، حدیث : 10362)

یہاں حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو اس حکم عام سے اسْتثناء فرمادیا کہ عورت کو شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ واجب ہے ۔( فتاویٰ رضویہ ، 30 / 529)

جنابت کا عام حکم

(جنبی یعنی)جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا حرام ہے۔( بہار شریعت ، 1 / 326)

رخصت

فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :

اے علی! میرے اور تمہارے سواکسی کو حلال نہیں کہ اس مسجد میں جنابت کی حالت میں داخل ہو۔( ترمذی ، 5 / 408 ، حدیث : 3748)

موت و حیات اور اختیاراتِ مصطفیٰ

باطل کی موت دست مصطفی سے

غزوۂ بدر میں مسلمان کمزور اور بے سرو سامان تھے، جبکہ کفار اچھی تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کے حضور عرض کی: ’’اگر یہ جماعت مغلوب ہوگئی تو تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹھی بھر خاک اُٹھا کر لشکر کفار کی طرف پھینکی۔ اللہ تعالیٰ نے اس معجزے کو یوں بیان فرمایا:

وَمَا رَمَیۡتَ إِذۡ رَمَیۡتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ

ترجمہ: اے محبوب! وہ خاک تم نے نہ پھینکی، بلکہ اللہ نے پھینکی۔

کیسا محبت بھرا انداز کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل فرمایا یعنی وہ ہاتھ ہو ظاہرا پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ تھے لیکن حقیت میں ید اللہ ( اللہ پاک کے دست قدرت ) تھے۔

اس کی متعدد وجوہات ہیں۔

اول:۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت میں فرق نہ آئے۔

دوم:۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فعل فعل خدا ٹھہرے۔

اس سے واضح ہوا:

  • حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فعل، فعل الٰہی کے قائم مقام ہے۔

  • باطل کی موت اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں لکھ دی۔

صلح حدیبیہ ، بیعت رضوان اور مقام عثمان غنی

صرف یہی نہیں بلکہ بیعت رضوان کے موقع پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ (الفتح )

ترجمہ: وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے بائیں ہاتھ کو عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر خود اپنے دست اقدس پر ہی ان کی طرف سے بیعت لی۔ یہ اعلان الٰہی اس حقیقت کی مہر ہے کہ:

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہاتھ اللہ کے دست قدرت کا مظہر ہے۔

  • آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت، اللہ کی بیعت ہے۔

اطاعت مصطفی ہی اطاعت الٰہی ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ (النساء: 80)

ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

  • ظاہراً کام حضور علیہ الصلاة والسلام فرمارہے ہیں مگر حقیقت میں وہ کام اللہ رب العزت کر رہا ہے۔

  • گویا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے اللہ تعالی کی قدرتوں کا ظہور ہو رہا ہے۔

موت و حیات اور شریعت کے اختیارات

ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ:

رسول خدا کا ہر حکم حکم خدا ہےاور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا رضائے الہی ہے۔

دیکھا آپ نے بدر کے مقام میں مٹھی بھر خاک نے ہزاروں کے لشکرکو موت کی نیند سلا دیا مگر حقیقت میں وہ اللہ پاک کی طرف سے پھینکی ہوئی تھی۔

  • صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں دست اقدس جو دست قدرت فرمایا۔

  • فرمان الہی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول کی اطاعت حقیقت میں اللہ پاک کی اطاعت ہے۔

  • قبلہ کی تبدیلی بھی اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوئی۔

معلوم ہوا کہ موت و حیات، عزت و نصرت اور شریعت کے جملہ اختیارات اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمائے۔

اور ایمان کی پہلی شرط یہی ہے کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر فیصلہ کو بلاچوں و چراں تسلیم کرے۔

عذاب و حساب میں اختیارات مصطفیٰ

اللہ تعالیٰ خالقِ کائنات، مالکِ ارض و سما اور حساب لینے والا ہے۔ مگر اس نے اپنے محبوب، سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے بے مثال عطائی اختیارات عطا فرمائے جن کی نظیر پوری کائنات میں نہیں ملتی۔

رب العالمین اور رحمۃ للعالمین

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود کو ربُّ العالمین اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین فرمایا۔

یعنی، اللہ رب ہے، خالق ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری مخلوق کے لیے سرچشمۂ رحمت ہیں، جس جس پر اللہ کا ربوبیت کا فیض ہے، اسی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا فیض بھی جاری ہے۔ تمام عوالم عالم امکان، امر، انوار، اجسام، ملائکہ اور برزخ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے دائرے میں ہیں۔

حتی کہ جبریل امین علیہ السلام نے بھی یہ اعتراف کیا کہ مجھے اپنے انجام کی امان رحمت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی۔

دنیاوی عذاب کا اٹھ جانا

پہلی امتیں نافرمانی پر اجتماعی عذاب کا شکار ہوئیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بعد اللہ پاک نے فرمایا:

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِیْهِمْ

یعنی ،جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں موجود ہیں، اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔

چنانچہ

اجتماعی عذاب اٹھا لیے گئے۔ دنیا رسوائی والے عذاب سے محفوظ ہوئی۔ کفار تک بھی اس رحمت کا فیض پہنچا۔ یہ سب رحمت کاملہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہے۔

قیامت کا آغاز بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے

محشر برپا ہونا، حساب کا شروع ہونا، نجات کا دروازہ کھلنایہ سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہیں۔ قیامت کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے، حساب کا کھلنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ، شفاعت کبریٰ سے امت کی نجات یہ سب عذاب و حساب پر اختیارمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے۔

ساری کائنات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کی محتاج

اللہ خالق ہے، مگر تقسیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں:

’’اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں‘‘(بخاری)

یعنی:

خیر، فضل، رحمت، ہدایت سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے۔

کائنات کے ذرے ذرے تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض پہنچتا ہے۔

دنیا کی بقا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے صدقے ہے۔

حتیٰ کہ کفار نے جب اپنے خلاف عذاب کی بددعا کی، تب بھی اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان پر عذاب نہ فرمایا۔

نعمتوں کی تقسیم میں اختیارات مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

دنیا و آخرت کی ہر نعمت چاہے علم ہو، ایمان ہو، مال ہو یا اولاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا اور تقسیم کے صدقے ملی ہے۔ اس میں کوئی قید نہیں کہ کون سی نعمت اللہ دیتا ہے اور کون سی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم کرتے ہیں، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ’’اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں‘‘ (بخاری) مطلق ہے۔ جب قید موجود نہ ہو تو ہر نعمت اسی تقسیم میں داخل ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطاؤں کی عملی شہادتیں

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم اور عطا کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کون سی نعمت ایسی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقسیم نہ فرمائی:

علم و قرآن کی عطا

امت کو علم، ہدایت اور قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ملا۔

ایمان کی عطا

ہر مؤمن کا ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت، نظر اور برکت کا نتیجہ ہے۔

معجزاتی عطائیں

جنگِ اُحد میں

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ تیر لگنے سے نکل گئی تو وہ ڈھیلا لے کر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آنکھ مانگی تو آپ نے انہیں آنکھ عطا کر دی۔( مصنف ابن ابی شیبہ،7/ 542، حدیث:15) ۔

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی، حضور نے ان کو کھجور کی ایک شاخ عنایت فرمائی جو ان کے ہاتھ میں تلوار بن گئی اور وہ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔( مدارج النبوت ، 2/123)

یہ واضح نشانیاں بتاتی ہیں کہ بدنی، جسمانی، روحانی، مالی، ایمانی تمام نعمتوں کی تقسیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک سے جاری ہے۔

  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا برابر ہے مگر لینے والے اپنی اپنی وسعت کے مطابق لیتے ہیں۔

  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا میں کمی نہیں، فرق صرف لینے والوں کے ظرف، استعداد اور نصیب میں ہے۔

اسی کو سمجھانے کے لیے علماء نے مثال دی:

بجلی گھر ایک ہے مگر بلب اپنی طاقت کے مطابق روشنی لیتے ہیں جیسے بلب کا رنگ ہو ویسی روشنی دکھائی دیتی ہے۔

اسی طرح:

کوئی غوث بنتا ہے، کوئی قطب و ابدال، کوئی داتا بنتا ہے، کوئی غریب نواز، کوئی علم کا نور لے رہا ہے، کوئی عرفان و روحانیت، اور کوئی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہو رہا ہے۔ اصل میں سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے در سے لے رہے ہیں۔

1- اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہیں؟

جواب: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ اختیارات جن کے ذریعے آپ امت کی رہنمائی، نصرت، حفاظت اور نعمتوں کی تقسیم فرماتے ہیں، اختیاراتِ مصطفی کہلاتے ہیں۔

2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرعی اختیارات کیا ہیں اور قرآن و سنت انہیں کیسے بیان کرتے ہیں؟

جواب: شرعی اختیارات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریعت میں تخفیف، تخصیص اور استثناء دینے کا حق شامل ہے، جیسا کہ نماز، عدت، گواہی اور احکامِ عبادات میں واضح ہے۔

3- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دینی و روحانی اختیارات کا دائرہ کہاں تک ہے؟

جواب: یہ اختیارات امت کی ہدایت، ایمان، اخلاقی و روحانی اصلاح، نصرت و حفاظت اور دنیا و آخرت کی بھلائی تک پھیلے ہوئے ہیں۔

4- کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معجزاتی و تکوینی اختیارات اللہ تعالیٰ کی عطا سے حاصل ہیں؟

جواب: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے باطل پر غالب آنے، نصرت، زندگی و موت، معجزات اور کائناتی امور میں اختیار حاصل ہے، جیسا کہ بدر، احد اور دیگر واقعات میں ظاہر ہوا۔

Tags

No tags

Comments (0)

Login Required
Please login to add a comment and join the discussion.

No comments yet

Be the first to share your thoughts on this article!