نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثیر احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اختیار بھی عطا فرمایا ہے کہ آپ کسی عام حکم میں سے جس کو چاہیں الگ کر دیں۔ احادیث میں موجود کثیر مثالوں میں سے چند ملاحظہ ہوں۔
نماز کا عام حکم
فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : بے شک اللہ پاک نے اپنے بندوں پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔( بخاری ، 1 / 471 ، حدیث : 1395)
دو نمازوں کی اجازت
ربِّ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس شرط پر اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی کہ وہ روزانہ صرف دو نمازیں ادا کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی یہ شرط قبول فرما لی۔ یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک کی جانب سے شرعی احکام میں تخفیف، تخصیص اور رخصت دینے کا خصوصی اختیار عطا ہوا ہے۔(مسند احمد، 7/283، حدیث: 20309)
حالت نماز میں حکم مصطفٰی کی تعمیل
حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ نماز ادا کر رہے تھے کہ اسی دوران سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آواز دی۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے فوراً نماز مختصر کر کے حاضر خدمت ہونے کی سعادت حاصل کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے سعید! تم نے دیر کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نماز ادا کر رہا تھا۔
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ (الانفال: 24)
ترجمہ: اے ایمان والو! لبیک کہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر جب وہ رسول بلائے تمہیں اس امر کی طرف جو زندہ کرتا ہے تمہیں۔
نماز حکم مصطفی کی تعمیل سے نہیں ٹوٹتی چاہے رخ قبلہ سے ہٹ جائے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکارا تو وہ نماز میں تھے۔ انہوں نے صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا لیکن جواب نہ دیا، پھر نماز مختصر کر کے حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اُبی! جب میں نے بلایا تو جواب دینے سے کیا چیز مانع تھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نماز میں تھا۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ (الانفال: 24) ترجمہ: اے ایمان والو! لبیک کہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر جب وہ رسول بلائے تمہیں اس امر کی طرف جو زندہ کرتا ہے تمہیں۔ کیا اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟ جی نہیں! اگرچہ نماز چھوڑ دے، قبلہ سے رخ پھیر لے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرے، حکم مصطفیٰ کی تعمیل میں کام بھی کر لے تب بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ شخص در حقیقت اطاعت رسول میں ہی مصروف ہے۔ امام قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں:- اگرچہ نمازی کا سینہ قبلہ سے ہٹ جائے مگر وہ رخ اس ذات کی طرف پھرتا ہے جو قبلہ کا بھی قبلہ ہے۔
- اگرچہ نماز میں گفتگو نماز کو باطل کرتی ہےمگر وہ گفتگو کس سے تھی؟جس ذات کو نماز میں سلام کرنا بھی واجب ہے: ’’السلام عليك أيها النبي‘‘۔
- نماز چھوڑ کر خدمت مصطفیٰ میں حاضر ہونا واجب ہے۔
- وہی نماز اللہ پاک کی بارگاہ میں قابل قبول ہے، جو اطاعت رسول میں ادا کی گئی ہو، محبت رسول میں پڑھی گئی ہے۔
- اللہ پاک نے دونوں عالم کے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو لا محدود اختیارات کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اختیار دیا ہے کہ وہ دوران نماز بھی نمازی کو اپنے پاس بلا سکتے اور کام بھی بتا سکتے ہیں ۔
- سب سے بڑے کرم کی بات یہ ہے کہ وہ کام کرتے ہوئے بھی نماز میں ہے اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی ۔
- حقیقت یہی ہے کہ شریعت مصطفی ہی شریعت الہی ہے۔
- عبادت کی روح محبت رسول ہے۔
ترجمۂ کنزالعرفان : اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنالو۔( پ3البقرۃ : 282)
ایک کی گواہی دو کے برابر قرار دے دی
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالشہادتین حضرت سیدنا خزیمہ بن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ کی اکیلے کی گواہی ہمیشہ کےلئے دو مَردوں کی گواہی کے برابر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : یعنی، خزیمہ جس کے حق میں یا جس کے خلاف گواہی دیں تو ایک ان ہی کی گواہی کافی ہے۔( معجم کبیر ، 4 / 87 ، حدیث : 3730)ریشم کا عام حکم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سیدھے ہاتھ میں ریشم اور اُلٹے ہاتھ میں سونا لے کر ارشاد فرمایا : بے شک یہ دونوں چیزیں میری اُمّت کے مَردوں پر حرام ہیں۔( ابوداؤد ، 4 / 71 ، حدیث : 4057)ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت
حضرت سیدنا زبیر بن عوام اور حضرت سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہماکے بدن میں خُشک خارش تھی۔ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی۔( بخاری ، 4 / 61 ، حدیث : 5839)سونے کا عام حکم
حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔( المجالسۃ وجواہر العلم ، 3 / 283 ، حدیث : 3639) سونے کی انگوٹھی پہنادی حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہوں نے بیان کیا : ہم رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے۔ آخر میں جب صرف یہ انگوٹھی باقی رہ گئی تو نظر مبارک اٹھاکر حاضرین کو ملاحظہ فرمایا اور نگاہیں جھکالیں ، دوسری بار بھی نظر یں اٹھاکر دیکھا اور نگاہ نیچی کرلی ، تیسری بار پھر نظررحمت ڈالی اورفرمایا : اے براء! میں قریب حاضر ہوکر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بیٹھ گیا۔ انگوٹھی لے کر میری کلائی تھامی اور ارشاد فرمایا : اللہ و رسول تمہیں جو پہناتے ہیں اسے پہن لو۔( مسند احمد ، 6 / 427 ، حدیث : 18625) عدت کا عام حکم (شوہر کی)موت کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔( بہار شریعت ، 2 / 237) اللہ پاک کا فرمان ہے : وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔( پ2 ، البقرۃ : 234) تین دن کی عدّت حضرت اسماء بنتِ عمَیس رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت سیّدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے ارشاد فرمایا: تین دن تک بناؤ سنگھار سے الگ رہو ، پھر جو چاہو کرو۔( جامع الاحادیث ، 4 / 89 ، حدیث : 10362) یہاں حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو اس حکم عام سے اسْتثناء فرمادیا کہ عورت کو شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ واجب ہے ۔( فتاویٰ رضویہ ، 30 / 529) جنابت کا عام حکم(جنبی یعنی)جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا حرام ہے۔( بہار شریعت ، 1 / 326) رخصت فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اے علی! میرے اور تمہارے سواکسی کو حلال نہیں کہ اس مسجد میں جنابت کی حالت میں داخل ہو۔( ترمذی ، 5 / 408 ، حدیث : 3748) موت و حیات اور اختیاراتِ مصطفیٰ باطل کی موت دست مصطفی سے غزوۂ بدر میں مسلمان کمزور اور بے سرو سامان تھے، جبکہ کفار اچھی تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کے حضور عرض کی: ’’اگر یہ جماعت مغلوب ہوگئی تو تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹھی بھر خاک اُٹھا کر لشکر کفار کی طرف پھینکی۔ اللہ تعالیٰ نے اس معجزے کو یوں بیان فرمایا: وَمَا رَمَیۡتَ إِذۡ رَمَیۡتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ ترجمہ: اے محبوب! وہ خاک تم نے نہ پھینکی، بلکہ اللہ نے پھینکی۔ کیسا محبت بھرا انداز کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل فرمایا یعنی وہ ہاتھ ہو ظاہرا پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ تھے لیکن حقیت میں ید اللہ ( اللہ پاک کے دست قدرت ) تھے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ اول:۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت میں فرق نہ آئے۔ دوم:۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فعل فعل خدا ٹھہرے۔ اس سے واضح ہوا:
- حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فعل، فعل الٰہی کے قائم مقام ہے۔
- باطل کی موت اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں لکھ دی۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہاتھ اللہ کے دست قدرت کا مظہر ہے۔
- آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیعت، اللہ کی بیعت ہے۔
- ظاہراً کام حضور علیہ الصلاة والسلام فرمارہے ہیں مگر حقیقت میں وہ کام اللہ رب العزت کر رہا ہے۔
- گویا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے اللہ تعالی کی قدرتوں کا ظہور ہو رہا ہے۔
- صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں دست اقدس جو دست قدرت فرمایا۔
- فرمان الہی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول کی اطاعت حقیقت میں اللہ پاک کی اطاعت ہے۔
- قبلہ کی تبدیلی بھی اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوئی۔
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا برابر ہے مگر لینے والے اپنی اپنی وسعت کے مطابق لیتے ہیں۔
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا میں کمی نہیں، فرق صرف لینے والوں کے ظرف، استعداد اور نصیب میں ہے۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!