خشیت الہی اور عبادت مصطفٰی

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عبادات محض رسومات نہیں بلکہ روح کی بیداری اور اللہ سے قرب کا ذریعہ ہیں۔ اس کٹیگری میں نماز، روزہ، تلاوت، ذکر، دعا اور تہجد جیسے اعمال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی سنت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہاں آپ جانیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خشیت، خشوع، اخلاص اور عبادت کی قوت نے کس طرح صحابہ کرام کے دل بدلے اور امت کے لیے کامل نمونہ قائم کیا۔ اپنی روحانی زندگی کو سنت کے مطابق سنوارنے کے خواہش مند افراد کے لیے یہ کٹیگری بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

November 18, 2025

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاخوف و خشیت الٰہی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف و خشیت الٰہی اور اس کی طاعت و عبادت، اللہ پاک کے علم و معرفت کے مطابق تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حقیقت کا شناسا ہوگا، وہ اتنا ہی زیادہ اس سے ڈرنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا ہوگا۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا:

اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر : 28)۔

ترجمہ :حقیقت یہ ہے کہ اس کے بندوں میں سے علماء ہی اللہ تعالٰی کی خشیت رکھتے ہیں۔

صحیح بخاری میں بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرتم وہ جانو جو کچھ کہ میں جانتا ہوں تو تم کم ہنسو گے اور بہت زیادہ رو گئے ۔ ترمذی کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ فرمایا میں وہ تمام کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے ۔ اور میں وہ کچھ سن رہا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔ اور فرمایا کہ آسمان خاص قسم کی آواز نکالتا ہے اور اس لائق ہے کہ آواز اطیط نکالے ۔ اطبیط پالان اور اونٹ کے درد وکرب سے کراہنے کی آواز کو کہتے ہیں اور آسمان کا اطیط کرنا ملائکہ کی کثرت واثر دہام کی گراں باری کی بنا پر ہے۔ یہ کنایہ ہے اور فرمایا آسمان میں چار انگل بھی ایسی جگہ نہیں ہے۔ جہاں خدا کے حضور فرشتے پیشانی رکھے سجدہ نہ کر رہے ہوں۔

دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا خدا کی قسم ! اگر تم وہ کچھ جانو جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنسو گے اور بہت زیادہ روؤ گے۔ اور اپنی بیویوں سے ہم بستری سے لذت نہ اٹھاؤ گے۔ اور زمینوں اور اس کی بلندیوں اور راہوں کی طرف نکل کھڑے ہو گے۔ اور خدا کے حضور گڑگڑاؤ گے ۔ اور فریاد کرو گے ۔ اور دعاؤں میں اونچی آوازوں سے پکارو گے ۔ مطلب یہ کہ میں صبر تحمل کی قوت سے ان کے بوجھ کو اٹھاتا ہوں۔ اگر تم جان لوتو ہرگز وہ بوجھ نہ اٹھا سکو گے۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں فرماتے ہیں کہ ہمہ وقت تمنا کرتا ہوں کہ کاش میں درخت ہوتا کہ کاٹ ڈالا جا تا ۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیا ملاحظہ فرما رہے ہیں ؟

فرمایا میں دیکھ رہا ہوں بہشت و دوزخ کو۔ لہذا حق تعالیٰ نے آپ میں خشتیہ قلبیہ اور استحضار عظمت الہیہ کے ساتھ علم الیقین اور عین الیقین کو اس شان سے جمع فرمایا کہ کوئی دوسرا ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

رسول اللہ کا جذبہ عبادت

ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ: ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو زندہ کرتے (یعنی شب بیداری فرماتے) اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور عبادت میں خوب کوشش کرتے اور تہبند مضبوطی سے باندھ لیتے۔ ‘‘ (یعنی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے۔)( مسلم، ص598، حدیث: 1174)

عبادت میں استقامت و مشقت

سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر عمل لزوم و ددام لیے ہوئے ہے تم میں سے کس کی طاقت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی مشقت برداشت کر سکے۔

حضرت عوف بن مالک رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب استراحت سے بیدار ہوئے ۔ مسواک کی اور وضو کر کے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ تو میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ پھر آپ نے سورہ بقر کی تلاوت شروع فرمائی تو کوئی رحمت والی آیت ایسی نہ گزری جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توقف کر کے خدا کے حضور رحمت کی درخواست نہ کی ہو۔ اور ایسی کوئی عذاب والی آیت نہ گزری جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توقف کر کے خدا سے اس عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ پھر آپ نے قیام کے برابر طویل رکوع فرمایا۔ اور پڑھا

سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْعَظَمَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ۔

پھر رکوع سے سرمبارک اٹھا کر اتنا ہی قیام فرمایا۔ اور اس میں یہی کلمات پڑھے۔ اس کے بعد سجدہ کیا اس میں بھی یہی کلمات پڑھے۔ پھر دونوں سجدوں کے درمیان جلوس فرمایا۔ اس میں بھی اسی کی مانند کلمات پڑھے۔ (اس کے بعد بقیہ رکعتوں میں ) سورہ آل عمران سورہ نسا اور سورہ مائدہ کی تلاوت کی۔ اور کبھی آپ ایک ہی آیت پر ساری رات قیام میں گزار دیتے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ وہ آیت یہ ہوتی۔

اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ (المآئدۃ: 118)

ترجمہ، اگر تو ان پر عذاب فرمائے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔

اس سے مقصود امت کا عرض حال اور ان کی مغفرت کی درخواست تھی۔ منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے ہوتے اور آپ کا شکم اطہر دیگ کے جوش مارنے سے آواز کی مانند آواز دے رہا ہوتا۔

ابن ابی ہالہ کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ پر پے در پے غم آتے اور مسلسل آپ کو حزن و ملال پہنچتا رہتا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے رب سے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں اور ایک روایت میں سو بار ہے یہ سارا انددہ وغم اور استغفار امت کے لیے تھا اس کے ماسوا اور بھی وجوہ علماء بیان کرتے ہیں جسے رسالہ ” مرج البحرین میں ذکر کیا گیا ہے۔

سید نا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ سے وصال حق کے طریقے کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا میرے مال کی راس معرفت ہے۔ میرے دین کی اصل عقل ہے۔ محبت میری اساس ہے۔ شوق میری سواری ہے ذکر اللہ میرا انیس ہے شفقت میرا خزانہ ہے غم میرا رفیق ہے علم میرا ہتھیار ہے صبر میری چادر ہے رضا میری غنیمت ہے۔ فقر میرا فخر ہے۔ زہد میری حرفت ہے۔ یقین میری قوت ہے۔ صدق میرا شفیق ہے۔ طاعت میری محبت ہے۔ جہاد میری خوبی ہے۔ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک و آرام نماز میں ہے۔ میرے دل کا پھل ذکر میں ہے اور میرا غم اپنی امت کے لیے ہے اور میرا شوق اپنے رب کی طرف ہے ۔

رسول اللہ کاکثرت سے عبادت کرنا

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین شق(ورم زدہ) ہو جاتے۔ میں نے عرض کی:’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسا کیو ں کرتے ہیں ! حالانکہ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟‘‘ ۔ (بخاری، 3 / 329، حدیث: 4837)

عبادت میں شدت کرنا

شارح حدیث حضرت علامہ ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : انسان کا اپنے آپ پر عبادت میں شدت کرناجائز ہے اگرچہ وہ عبادت اس کے بدن کو تکلیف پہنچائے اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ شدت نہ کرے بلکہ صرف وہ عبادت کرے جو اس کے لیے آسان ہو۔ لیکن افضل یہی ہے کہ وہ کثرت سے عبادت کرے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟ پھر جو شخص اس بات سے ہی بے خبر ہے کہ وہ جنت کا مستحق ہے یا جہنم کا تو اس کے لیے عبادت کی کثرت کیسے ضروری نہ ہوگی؟ پس جسے اللہ پاک کثرت سے عبادت کی توفیق دے تو اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت بہترین نمونہ ہے۔بے شک انبیائے کرام علیہم السلام اور اللہ پاک کے نیک بندے اس کی صفات کے بارےمیں علم رکھنے اور اس کی بے شمار نعمتوں کے سائے میں ہونے کی بنا پر اس کے عذاب سے محفوظ ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نےاللہ پاک کے خوف سے کثرتِ عبادت کو اپنے اوپر لازم کیا۔ (شرح بخاری لابن بطال،3
/ 121)

حضور کا رات بھر عبادت کرنے کی وجوہات

علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حدیث پا ک میں ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا حضورنبی مکرم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنا تعجب کے طور پر تھا کہ آپ علیہ السلام تو بخشے بخشائے ہیں تو پھر اتنی عبادت کس لیے؟ تو آپ علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا : کیا مجھے شکر گزار بندہ بننا پسند نہیں ؟ یعنی اللہ پاک کی مغفرت اور اس کے مجھ پر جو انعامات ہیں اُن کا شکر ادا نہ کروں ؟ نیزعلامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شرح شمائل میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کیا میں اس وجہ سے عبادت میں مشقت کوچھوڑ دوں کہ اللہ پاک نے میری مغفرت فرمادی ہے اور میں اس کا شکرگزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟ اگرچہ اس نے میری بخشش فرمادی ہے لیکن میں نے کثرت عبادت کو خود پر اس لیے لازم کرلیا ہے تاکہ میں اس کا شکر گزار بندہ بن جاؤں ۔ نیز حضور علیہ السلام کے قول ” کیا میں اس کا شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟ “ کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’’ میرا اللہ پاک کی عبادت کرنا گناہوں کے خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کثیر انعامات کا شکر ادا کرنے کے لیےہےجو اللہ پاک نے مجھے عطا فرمائے ہیں ۔ (مرقاۃ المفاتیح، 3
/ 296، تحت الحدیث: 1220) ۔

اہم نکات

عبادت میں ایسی کثرت کرنا جو فرائض ودیگر حقوق العباد کی ادائیگی میں خلل نہ ڈالے جائز ہے۔ جس کی جتنی اِستطاعت ہو اُسے اتنی نفلی عبادت کرنی چاہیے۔ ربّ کی عبادت کرنا اِنعاماتِ الٰہیہ کے شکرانے کے لیےہو۔ جسے اللہ پاک کثرت سے عبادت کی توفیق دے تو اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت بہترین نمونہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سید المعصومین ہونے کے باوجود راتوں کو کثرت سے عبادت کی ، ہم گنہگاروں کو تو زیادہ ضرورت ہے کہ اللہ پاک کی خوب عبادت کریں ۔

Tags

No tags

Comments (0)

Login Required
Please login to add a comment and join the discussion.

No comments yet

Be the first to share your thoughts on this article!