عقیدہ ختم نبوت کی شرعی حیثیت
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی اور ابدی عقیدہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی یا رسول کے آنے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ قرآن، سنت، اجماعِ امت اور اقوالِ صحابہ و ائمہ سے یہ عقیدہ قطعی و یقینی طور پر ثابت ہے۔ فقہ کی طرح عقائد کے بھی چار اصول ہیں جن میں سے ایک "سوادِ اعظم" یعنی اہلِ سنت ہے۔ لہٰذا اقوالِ ائمہ سے استناد کا مطلب تقلید نہیں بلکہ دلیل ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت پر علمائے امت، فقہاء، محدثین، اور متکلمین نے کیا فرمایا۔
صحابہ کرام و تابعین کے اقوال سے ختم نبوت کا ثبوت
1-حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء کے بعد بھیجا۔
2-حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا قول
تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیاء میں آخری نبی ہیں۔
3-حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کا قول
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔
4-امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب انبیاء کے بعد مبعوث ہوئے(بھیجے گئے)۔
کتب سابقہ میں علماء کے اقوال سے ختم نبوت کا ثبوت
1-احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہوں گے، ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔
2-ان کے سوا کوئی نبی باقی نہیں رہے گا۔
3-وہ(حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر الانبیاء ہیں، ان پر نبوت مکمل ہوگئی۔
امت محمدیہ کے علماء کا اجماعی عقیدہ (علماء دین کے اقوال سے ختم نبوت کا ثبوت)
1-اجماع امت
تمام امت کا اجماع ہے کہ لفظ خاتم النبیین کا مفہوم صرف یہی ہے کہ: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، نہ رسول، نہ مدعی نبوت۔ جو اس مفہوم میں تاویل کرے یا تخصیص کرے، وہ نص قرآنی کا منکر اور کافر ہے۔
فقہاء و محدثین کے اقوال سے عقیدہ ختم نبوت کا ثبوت
صاحب بحر الکلام امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ کا قول
جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا قائل ہو، وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نصِ قطعی کا انکار کیا۔
امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول
جس نے ضروریات دین میں سے کسی بات کا (جیسا کہ ختم نبوت کا)انکار کیا وہ کافر ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول
مدعی نبوت سے کوئی نشانی مانگنا بھی کفر ہے کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ کی تکذیب ہے۔
علّامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:
جو کہے ’’میں نبی ہوں’’ یا‘‘پیغمبر ہوں‘‘وہ کافر ہے، اور جو اس سے معجزہ مانگے، وہ بھی کافر ہے۔
صاحب الشفاء شریف قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان
جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کو مانے، یا کسی کی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ قطعی کافر ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔
القتصاد فی الاعتقاد میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے
تمام امت نے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ سے یہی سمجھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کبھی کوئی نبی نہیں ہوگا، جو اس مفہوم میں تاویل کرے، وہ جنون یا کفر کی بات کرتا ہے۔
امام عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان
فلاسفہ کا یہ عقیدہ کہ ’’نبوت کسب سے حاصل ہوسکتی ہے‘‘ باطل ہے، کیونکہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان نکلتا ہے اور یہ قرآن کی تکذیب کے برابر ہے۔
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف
جو کہے کہ نبوت کبھی ختم نہیں ہوگی،یا کسی ولی کو نبی سے افضل سمجھے، وہ زندیق اور بے دین ہے۔
شرح المواہب اللدنیہ میں امام زرقانی کا قول
جو ختم نبوت کا انکار کرے، وہ قرآن و حدیث دونوں کا منکر ہے۔
اجماعِ امت کا فیصلہ
اہل سنت و الجماعت نے اجماعاً فیصلہ دیا ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کی نبوت کا اقرار کرے یا ختم نبوت میں شک کرے، وہ کافر، مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!