سب سے پہلے اور آخری نبی کون ہیں؟
سب سے پہلے اور آخری نبی، دونوں ہی حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں مگر دو مختلف پہلوؤں سے۔ (1):خلقت کے اعتبار سے: سب سے پہلے نبی ۔ (2):بعثت (پیدائشِ دنیا میں بھیجنے) کے اعتبار سے: سب سے آخری نبی۔ (1):خلقت کے اعتبار سے: سب سے پہلے نبی اول و آخر کا مفہوم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلقت میں سب سے اول اور بعثت میں سب انبیاء علیہم السلام سے آخر۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ترجمہ: وہی اوّل، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن، اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے۔ یہ آیت مقدسہ حمد الٰہی بھی ہے اور نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے۔ (مدارج النبوت) نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے بتائیے کہ سب سے پہلے اللہ پاک نے کیاچیز بنائی؟ ارشاد فرمایا : اے جابر ! بلاشبہ اللہ پاک نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔(مصنف عبد الرزاق ، الجزء المفقود ، ص 63) حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے نبوت ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حضور انور علیہ الصلاۃ والسلام سے پو چھا کہ آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم (علیہ السلام) کی روح نے جسم سے تعلق نہ پکڑا تھا۔(ترمذی،کتاب المناقب،باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث:3629،5/ 351) عالم ارواح میں عہد کا ثبوت اللہ کریم نے حضرت سیّدُنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو پیدا کرنے کے بعدآپ کی پیٹھ سے قیامت تک پیدا ہونے والی آپ کی ا ولاد کو نکال کر ان سے اپنے رب ہونے پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا۔ اس عہد کے موقع پر سب سے پہلے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے’’ بَلٰی‘‘(یعنی کیوں نہیں، تُو ہمارا رب ہے) فرمایا تھا۔(زرقانی علی المواہب،ج 1،ص66،ج7،ص186) ۔ (2):بعثت (پیدائشِ دنیا میں بھیجنے) کے اعتبار سے: سب سے آخری نبی اللہ پاک نے نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم فرمایادنیا میں سب سے آخر میں جس نبی کو مبعوث فرمایا گیا وہ بھی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں ،آپ پر ہی نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226) قیامت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولیت قیامت میں سب سے پہلے۔۔۔
- قبر انور سے اٹھیں گے۔
- سجدہ کا حکم ہو گا ۔
- شفاعت فرمائیں گے۔
- جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔
- جنت میں داخل ہوں گے۔
- امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب امتوں پر سبقت لے جائے گی۔
- درخت سلام کرتے۔
- پتھر بولتے ۔
- بادل سایہ کرتے ۔
- چاند دو ٹکڑے ہو جاتا۔
- سورج پلٹ آتا ۔
- ہرن پناہ مانگتا ۔
- جانور سجدہ کرتے۔
- اور کفار بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچائی کی گواہی دیتے ۔
حدیث وصال
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وصال کے روزے نہ رکھو۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ! آپ وصال کے روزے رکھتے ہیں ۔ فرمایا: تم اس معاملے میں مجھ جیسے نہیں، میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے تم وہ کام کیا کرو جو آسانی سے کر سکو ۔( مسلم، ص 429، حدیث:2567) صوم وصال کا معنی کیا ہے؟ صوم وصال کا معنی یہ ہے کہ روزے کے بعد روزہ رکھا جائے اور ان روزوں کے درمیان کھانا پینا نہ ہو، اس طرح جتنے روزے رکھے جائیں وہ سب صومِ وصال ہونگے۔( شرح صحیح مسلم، 3/89) یہ امت کے لئے کیوں مکروہ ہے؟ صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : صوم وصال کہ روزہ رکھ کر اِفطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھے ، (امت کے لئے) مکروہ تنزیہی ہے۔( بہار شریعت ، 1 / 966 بتغیر) مولانامفتی احمدیارخان نعیمی کی شرح مفسرشہیرحکیم الامت ،مولانامفتی احمدیارخان نعیمی بدایونی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی1391ھ) حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : (اس )میں صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تمام انسانوں سے خطاب ہے یعنی تم میں مجھ جیسا کوئی نہیں ۔ جب صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل نہ ہوسکے (تو)اور کسی کا کیا منہ ہے جو ان سے ہمسری کا دعوے کرے۔‘‘ مزیدارشادفرماتے ہیں :رب تعالیٰ کے فرمان:
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (الکہف: 18)
(ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں )
میں خالص بشریت میں تشبیہ ہے جس میں الوہیت کا خلط نہ ہو یعنی میں تمہاری طرح خالص بشر ہوں ،نہ خدا ،نہ خدا کا ساجھی ۔ پھر میری بشریت سے نبوت کا خلط ہوا جسے(آیت کے اس حصہ)’’یُوْحِیْۤ اِلَیَّ (الکہف: 18)(ترجمہ کنزالایمان: مجھے وحی آتی ہے )‘‘نے بیان کیا۔
لہٰذا یہ حدیث ،قرآن کی اس آیت کے خلاف نہیں ، تمام جہان کے اولیاء ایک صحابی کی مثل نہیں ہوسکتے جس نے ایمانی نگاہ سے ان کا چہرہ ایک آن دیکھا۔ اُن کی ذات تو بہت اعلیٰ ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،3/152)
علما نے اس کھلانے پلانے کی بہت توجیہیں کی ہیں ۔ بعض نے کہا کہ’’ اس سے قوت برداشت مراد ہے۔‘‘ بعض نے فرمایا کہ’’ اس سے روحانی غذائیں مراد ہیں ۔‘‘ بعض نے فرمایا کہ’’ اس سے معنوی فیضان اور مناجات کی لذتیں مراد ہیں ۔‘‘ بعض نے فرمایا کہ’’ اس سے بھوک پیاس کا نہ ہونا مراد ہے۔‘‘ وغیرہ۔
مگر حضرت عشق کا فتویٰ یہ ہے کہ حدیث اپنے بالکل ظاہری معنے پر ہے اور اس میں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ر ب تعالیٰ کی تین نعمتوں کا ذکر فرمایا، ایک یہ کہ تم سب اپنے بیوی بچوں کے پاس رات گزارتے ہو اور میں اپنے رب کے پاس ۔
دوسرے یہ کہ میں رب تعالیٰ کے پاس رہ کر خود نہیں کھاتا پیتا بلکہ مجھے رب تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔ کھلانے والا اس کا دست کرم، کھانے والا میں ۔
تیسرے یہ کہ رب تعالیٰ مجھے وہ روزی کھلاتا پلاتا ہے ، جس سے نہ روزہ ٹوٹے ،نہ روزوں کا تسلسل جائے یعنی جنت کے میوے اور سلسبیل تسنیم وغیرہ کے شربت۔
اس جملہ سے چند مسئلے معلوم ہوئے:
(۱
( ۲) دوسرے یہ کہ اگر حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ نیت عبادت کھانا پینا چھوڑیں تو خواہ ہفتوں نہ کھائیں ضعف و کمزوری بالکل طاری نہ ہوگی اور اگر بطور عادت کھانا ملاحظہ نہ کریں تو ضعف بھی نمودار ہوگا ا ور شکم پاک پر پتھر بھی باندھے جائیں گے کیونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں اور بشر بھی عبادت میں نورانیت کا ظہور ہے اور عادت میں بشریت کی جلوہ گری۔
لہٰذا یہ حدیث حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) کی اس روایت کے خلاف نہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو وقت کھانا نہ کھانے پر دو پتھر پیٹ سے باندھے۔
(۳) تیسرے یہ کہ جنتی میوے (یعنی پھل)کھانے اور وہاں کا پانی پینے سے روزہ نہیں جاتا جیسے رب تعالیٰ سے کلام کرنے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرنے سے نماز نہیں جاتی ۔بعض اولیا خواب میں کھا پی لیتے ہیں کہ کھانے کی خوشبو بیداری کے بعد ان کے منہ میں پائی جاتی ہے مگر ان کا روزہ قائم رہتا ہے، دیکھو! احتلام سے ہمارا روزہ نہیں جاتا۔
(۴) چوتھے یہ کہ بعض بندوں کو اسی زندگی میں جنتی میوے ملتے ہیں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا جنتی میوے کھانا قرآنِ پاک سے ثابت ہے۔
(۵) پانچویں یہ کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر کام ہمارے لئے سنت نہیں بلکہ وہ کام سنت ہے جو ہمارے لئے لائق عمل ہو۔ خصوصیات مصطفوی ہمارے لئے سنت نہیں ۔ روزہ ٔوصال، 9 بیویاں نکاح میں جمع فرمانا ہمارے لئے نہ سنت ہیں ،نہ لائق عمل۔ سنت و حدیث میں یہی فرق ہے۔(مراٰۃ المناجیح،3/ 152)
تقسیم کائنات
اللہ پاک نے اپنی مخلوق میں ساری نعمتوں کا قاسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ،اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین بنایا ہے تب ہی تو تقسیم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کی ہے۔ حدیث قاسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انما انا قاسم واللّٰہ یعطیاللہ عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔
(بخاری،کتاب العلم، باب من یرد اللّٰہ بہ خیرا...الخ،1/ 42،حدیث:71)
قیامت میں گواہی
تمام انبیاء پر اعتراض دور کرنے کے لیےآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہی دیں گے اور تمام انبیاء خاموش ہو جائیں گے۔ امت محمدیہ دوسری امتوں پر گواہی دے گی۔ باطن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورانی حقیقت تہبند شریف کی برکت سےنورانی بارش کا مشاہدہ مشہور مفسر حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض اوقات نور والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تجلی(یعنی روشنی) ساتھ والوں پر بھی پڑتی تھی جس سے ان پر بھی غیب کی چیزیں(یعنی چھپی باتیں ) ظاہر ہو جاتی تھیں۔ ایک بار حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے تیز بارش دیکھی،حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمایک اَنصاری (صحابی رضی اللہ عنہ) کو دفن کرنے قبرستان تشریف لے گئے تھے،واپسی پرآپ رضی اللہ عنھا نے عرض کی: حضور! اِس بارش میں آپ کہاں تھے،بھیگے کیوں نہیں؟ فرمایا:تمہارے سر پر کیا کپڑا ہے؟ عرض کی:آپ کا تہبند شریف۔ فرمایا:”اس تہبند کی برکت سے تم نے یہ غیبی نورانی بارش دیکھ لی،ورنہ یہ بار ش کسی کو نظر نہیں آتی۔( مراۃالمناجیح،7/199، بتغیرقلیل)“ بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے سر مبارک پر ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا تہبند مبارک تھا اس کی وجہ سے ان کو نور کی بارش نظر آئی یعنی غیب کے حالات نظر آئے ، جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک تہبند سر پر رکھنے سے بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاپر غیب ظاہر ہو جائے تو خود پیارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا کیا نظر نہیں آتا ہو گا!(بیانات امیر اہلسنت، ص76) لباس بشریت میں نورانی حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشری لباس اختیار فرمایا مگر نورانی شان ہمیشہ قائم رہی۔ عہد میثاق میں باطنی معرفت تمام انبیاء سے عہد لیا گیا کہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں، خبر دیں، انتظار کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت سب سے آخر میں ظاہر کی گئی مگر معرفت سب انبیاء کو پہلے عطا کی گئی۔ جامع ترین خلاصہ کلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اول بھی، آخر بھی، ظاہر بھی، باطن بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر صفت بے مثال ہے: اوّل ہونا بھی نرالا، آخر ہونا بھی نرالا، ظاہر ہونا بھی بے مثال، باطن ہونا بھی بے مثال۔ اور آخر میں فرمایا: وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر چیز کو جانتے ہیں۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!