ختم نبوت کا اعلان کوئی نئی بات نہیں بلکہ ازل سے اللہ پاک کا طے کردہ فیصلہ ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضور سیدالانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل اور ختم کر دیا جائے گا۔ اللہ پاک نے اپنے آخر الزماں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاءِ کرام کا سردار، تمام رسالتوں کا جامع اور سلسلۂ نبوت کا اختتام قرار دیا۔ اسی لیےخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودمبارک کو رحمت للعالمین اور آپ کی شریعت کو خاتم الشرائع بنایا گیا۔قرآنِ کریم میں واضح اعلان فرمایا گیا۔ چنانچہ
خود نبی اخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے ختم نبوت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(مسند امام احمد، 6 / 87، حدیث:17163)
تخلیق میں اوّل، بعثت میں سب سے آخری
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی کے اس فرمان : {(اے حبیب ! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے ان کی تبلیغ رسالت کا عہد لیا خصوصاً آپ سے اور نوح سے ...] کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان ختم نبوت یوں فرمایا کہ: میں خلقت کے لحاظ سے سب سے پہلا اور بعثت کے لحاظ سے سب سے آخری نبی ہوں سو ان سب سے پہلے ( نبوت ) کی ابتداء مجھ سے ہی کی گئی۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تخلیق اور دنیا میں تشریف لانے کے اعتبار سے بذات خود اعلان ختم نبوت فرمایا: میں انبیاء کرام میں تخلیق کے اعتبار سے سب سے اول اور بعثت کے اعتبار سے سب سے آخر پر ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں
صاحب تفسیر خازن اپنی تفسیر میں عقیدۂ ختم نبوت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳)
نائب رسول اور اعلان ختم نبوت
حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان ختم نبوت فرماتے ہوئے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے، ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون علیہ الصلاۃ والسلام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں اس لئے تم نبی نہیں ہو۔ (مسلم، ص1310، الحدیث: 31(2404))
مولا مشکل کشا علی المرتضٰی کا عقیدہ ختم نبوت
اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ختم نبوت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دو کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے۔(ترمذی، 4 / 121،الحدیث:2279)
اُمت کے لیے ختم نبوت کا اعلان
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔(معجم الکبیر، 8 / 115، الحدیث: 7535)
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کے کلمات اور توبہ کی قبولیت
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے حکمت و مشیت ایزدی کے تحت خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کرنے لگے: (اے میرے مولا!) میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، کیا ( پھر بھی) تو مجھے معاف نہیں فرمائے گا ؟ پس اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کیا ہیں اور محمد کون ہیں؟ تو حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی : اے اللہ ! تیر انام بابرکت ہے جب تو نے مجھے خلعت تخلیق پہنائی تو میں نے اپنا سر اٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا، وہاں لکھا تھا:لا الله إلا الله محمد رسول اللہ ۔ سو میں نے جان لیا کہ یہ کوئی تیرے نزدیک عظیم قدر و منزلت والی ذات ہی ہے کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھ رکھا ہے چنانچہ اللہ پاک نے میری طرف وحی فرمائی کہ اے آدم! یہ تیری اولاد میں سے خاتم النبیین ہیں اور اس کی امت تیری اولاد میں سے آخر الامم ہے اور اے آدم! اگر یہ نہ ہو تا تو میں تجھے خلعت تخلیق سے نہ نواز تا۔
تخلیق کے آغاز سے ختم نبوت کا اعلان
زیر نظر احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا جا چکا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام کی تشکیل عصری بھی نہ ہوئی تھی۔ وہ روح اور مٹی کے درمیان تھے پھر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی عرش معلی پر اسم جلالت کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا۔ باری تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے استفسار پر اپنے محبوب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کے لقب سے یاد فرمایا۔
تمام انبیائے کرام کا اعلان ختم نبوت
احادیث مذکورہ ختم نبوت کے اس بیان پر مشتمل ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء ورسل کے بعد مبعوث کیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل اپنی اپنی امت اور قوم کو ہمارے آقا و مولا حضور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری سناتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے کی تاکید و تلقین کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں تشریف لے آئے۔
جھوٹے مدعیانِ نبوت کی پیشین گوئی کرتے ہوئے اعلان ختم نبوت
حضرت عبد الله بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعوے دار کی خبر دیتے ہوئے ختم نبوت کا اعلان بھی فرمایاہے کہ: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس کذاب دجال نہ نکل آئیں، انہی میں سے مسیلمہ ، عنسی، مختار، عرب کے شر پسند قبائل بنوامیہ ، بنو حنیفہ اور ثقیف ہیں۔
حضرت ابو قلابہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ پاک کے عطا کردہ سے علم غیب سے نبوت کے جھوٹے مدعیان کی پیشن گوئی کرتے ہوئے خود ختم نبوت کا اعلان فرمایاہے کہ: عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیلمہ کذاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں فرمایا تھا، لوگوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا، پھر ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان خطاب کے لیے تشریف فرما ہوئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شان کے لائق اس کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: یہ شخص جس کے متعلق تم بہت زیادہ گفتگو کر رہے ہو پس بے شک یہ دجال اکبر سے پہلے نکلنے والے تیس کذابوں میں سے ایک ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کے انکار کا انجام
احادیث مذکورہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار ختم نبوت کا انجام اور اس کے حکم کی تصریح کچھ اس طرح فرمادی ہے کہ میری بعثت تمام انبیاء ورسل کی بعثتوں کے بعد ہوئی ہے، میرے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی شکل میں ظلی و بروزی، حقیقی و غیر حقیقی، لغوی و مجازی یا تشریعی و غیر تشریعی نبوت و غیرہ کا خود ساختہ قول گھڑنے والا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی سلسلہ بعثت کو جاری مانتا ہے جو قرآن و سنت کے بے شمار قطعی دلائل کے علاوہ مذکورہ بالا فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے، لهذا ایسا شخص بالاتفاق مرتد اور خارج از اسلام ہے۔
اہل سنّت کا عقیدہ ختم نبوت
اہل سنت وجماعت کا اجتماعی عقیدہ ختم نبوت کا اعلان ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی (ضروری) ہے، اور یہ قطعیَّت قرآن(ضروریاتِ قرآن) و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ جو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختم نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔
اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عقیدۂ ختم نبوت کا اعلان یوں فرماتے ہیں کہ:
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم ہونا یعنی بعثت میں تمام انبیائے کرام اور رسل عظام علیہم السلام میں سب سے آخری ہونا، بغیر کسی تاویل و تخصیص کے ضروریات دین میں سے ہے، جو اس کا انکار کرے یا اس میں معمولی سا شبہ لائے کافر و مرتد مستحق لعنت ہے۔
منکرین ختم نبوت کا رد
جو شخص خاتم ا لنبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یاآپ کے بعد کسی کو نبوت ملنے کا عقیدہ رکھے یا کسی نئے نبی کے آ نے کو ممکن مانے وہ کافر ہے۔(المعتقد المنتقد)۔
ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کی روح اور ایمان کی بنیاد ہے، اللہ پاک نے اس وقت ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے کہ جب نہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، نہ زمین بنائی گئی، نہ آسمان بنایا گیا، اور اس امت کو یہ شرف بخشا کہ وہ سب سے آخری نبی کے امتی کہلائیں، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ختم نبوت کے تحفظ کو ایمان کا فریضہ سمجھیں اور منکرین ختم نبوت مقابلے میں اتحاد و استقامت کا مظاہرہ کریں۔
اللہ پاک ہمیں عقیدۂ ختم نبوت پر زندگی گزارنے اور اسی پر ایمان کے ساتھ دنیا سے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
نوٹ: حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختمِ نبوت کے دلائل اور منکروں کے رد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی14ویں جلد میں موجود رسالہ ’’ المبین ختم النبیین ‘‘ (حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے دلائل) اور15ویں جلد میں موجود رسالہ ’’ جزاءاللہ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ ‘‘ (ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کا رد) مطالعہ فرمائیں ۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!