اسلام دینِ فطرت ہے جس کی بنیاد کامل ایمان، توحید اور رسالت پر ہے۔ انہی بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم اور غیر متزلزل حقیقت ختمِ نبوت پر ایمان ہے۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا۔ اسی عقیدے کی حفاظت کے لیے امت نے ہر دور میں بھرپور جدوجہد کی ہے۔
جب ہم اسلامی تاریخ، قرآن و حدیث اور امتِ مسلمہ کے اجماعی بیانات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ختمِ نبوت پر ایمان صرف عقیدہ نہیں، ایمان کی پہلی شرط اور اساس ہے۔ جنونِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی مظہر بھی ختمِ نبوت پر ایمان ہی ہے۔ مسلمان اپنے دین، ایمان اور ناموسِ رسالت کی حفاظت اسی عقیدے کے ذریعے کرتے ہیں، کیونکہ ختمِ نبوت پر ایمان کے بغیر نہ ایمان مکمل ہوتا ہے، نہ شریعت کا فہم درست رہتا ہے۔
عہدِ حاضر میں جب مختلف فتنوں اور فکری یلغار نے مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنایا، تو سب سے زیادہ حملے ختمِ نبوت پر ایمان پر کیے گئے، کیونکہ دشمنانِ اسلام جانتے ہیں کہ اگر ختمِ نبوت پر ایمان کمزور ہو جائے تو دین کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔ موجودہ تحقیق میں ہم اسی حقیقت کو قرآن، حدیث اور سلفِ صالحین کے اقوال کی روشنی میں بیان کریں گے اور ثابت کریں گے کہ ختمِ نبوت پر ایمان صرف نظریاتی اقرار نہیں بلکہ عملی تقاضا بھی رکھتا ہے۔
یہ مضمون اس لیے بھی اہم ہے کہ آج کئی فتنہ پرداز گروہ جدید اصطلاحات، لبرل ازم اور فریبِ نظری سے ختمِ نبوت پر ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم جدید ذہن کے سامنے یہ حقیقت مدلل انداز میں رکھیں گے کہ ختمِ نبوت پر ایمان کا انکار امت سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ختمِ نبوت پر ایمان کو دل، زبان اور عمل سے مضبوط کرے اور اس مقدس عقیدے کے تحفظ میں اپنی ذمہ داری ادا کرے۔
ایمان کسے کہتے ہیں
ایمان کے لغوی معنیٰ ہیں:تصدیق کرنا یعنی سچا مان لینا۔( تفسیر قرطبی،الجزء الاول، 1/ 147) اصلاحِ شرع میں ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں۔( بہارِ شریعت، 1 / 172، حصہ:1)
مومن کسے کہتے ہیں
اور جو شخص ضروریاتِ دین میں موجود تمام باتوں کی سچے دل سے تصدیق کر لے وہ مومن کہلاتا ہے۔
ایمان والوں کی خصلتیں
قرآن میں اہلِ ایمان کی اچھی خصلتوں کا ذکر کرکے ان کو اپنانے والوں کے لئے یہ بشارت دی گئی: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(پ9،الاعراف:157)
اس آیت میں رسول سے سرکارِ دو عالمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم مراد ہیں۔( تفسیر صراط الجنان،3/446 ) حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اور میری اَولاد اسے اپنی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے اور میری ذات اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے اور میرے گھر والے اسے اپنے گھر والوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔( شعب الایمان ، 2 / 189 ، حدیث : 1505)
نبی سے نسبت رکھنے کی برکات
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ لباس ہو ، جگہ ہو یا آپ کی آل و اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و توقیر کرنا عشق و محبت کا تقاضا ہے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عظیم ہوجاتی ہے مثلاً نسبتِ نکاح ملنے سے اُمّہاتُ المؤمنین اور ازواجِ مطہرات ، نسبتِ صحبت ملنے سے صحابیت اور نسبتِ اولاد ملنے سے سِیادَت کا شرف میسر آتا ہے۔ آپ کی اولاد جسے ہم ادب سے آلِ رسول اور ساداتِ کرام کہتے ہیں اسے بھی پیار اور احترام کی نِگاہ سے دیکھا جائے یہی مَحبّتِ رسول کا تقاضا ہے۔ اعمال کی قبولیت کا دار و مدار ایمان پر ہے، اگر ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔( تفسیرصراط الجنان،6/372ماخوذاً)
کامل ایمان کی نشانی
کامل ایمان کی نشانی یہی ہے کہ جس چیز کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہے ہم اس پر ایمان لائیں۔ سورہ بقرۃ کی آیت چار اور پانچ میں ارشاد ہوتا ہے: اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔
اخروی کامیابی
معلوم ہوا صرف پہلے انبیاء کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانا ضروری ہے اور اسی پر اخروی کامیابی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انبیاء کرام کی تصدیق کی ہے کسی کی بشارت نہیں دی۔ چنانچہ
سورہ آل عمران آیت 81 میں ارشاد ربانی ہے: پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول (یعنی سید عالم محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا۔
آخری نبی ہونے کی دلیل
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کے نبیوں کی تصدیق کی ہے تو اگر بعد میں کوئی نبی ہوتا تو اس کی بشارت بھی دیتے۔ جب آپ نے بشارت نہیں دی تو معلوم ہوا کہ نبوت و رسالت آپ پر ہی ختم ہو گئی ہے۔ جیسے تمام بادشاہت ایک خدا کی ہے تو ایسے ہی اب نبوت و رسالت بھی ایک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جیسا کہ سورۃ الاعراف کی آیت 158 میں فرمان باری تعالیٰ ہے: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں کہ آسمان وزمین کی بادشاہی اسی کو ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جِلائے اور مارے(زندگی اورموت دے) تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اُس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ۔
اس تعارف کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت و رسالت کا دائرہ بیان فرمادیا کہ جب تک زمین و آسمان رہیں گے تب تک آسمان نبوت پر میری ہی نبوت ورسالت کا آفتاب چمکتا رہے گا۔
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کو غالب کر کے بھی دکھایا اور قیامت تک اسلام کو غالب کرنے کا ضابطہ اور نظام بھی دیا۔ اپنی سیرت بھی دی، اپنا اسوۂ حسنہ بھی دیا، اپنا روحانی ، تعلیماتی اور عملی فیض بھی دیا۔اور یہ سلسلہ نہ صرف ہمارے زمانے میں جاری و ساری ہے بلکہ آئندہ بھی قیامت تک رہے گا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔( ترمذی، ۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)
فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم: بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی،ج 4،ص121، حدیث:2279) ۔ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم: اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر،ج 8،ص115، حدیث:7535) ۔
ہمارا یہی ایمان ہے کہ اب قیامت تک ہر قسم کا فیض جسے بھی ملے گا بار گاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ملے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر سلسلہ نبوت ختم فرمادیا اور کسی نئے نبی کی ضرورت و احتیاج باقی نہ رہی۔ نبوت کا معاملہ، نبوت کا تصور اور نبوت پر ایمان، یہ ایک فروعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بنیادی و حقیقی مسئلہ ہے۔ یہ ایمان اور کفر کا مسئلہ ہے۔ قرآن وسنت نے نبوت کا ایک ہی تصور دیا ہے۔ وہ یہ کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی وحی اترے وہ نبی ہوتا ہے، خواہ وحی ایک بار آئے یا ہزار بار۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں اور تمام انسانوں کے لیے انعامات الہیہ کی خوشخبری اور عذاب الہی کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں اور زمانوں کے لیے رحمت ہیں۔ آپ کی رحمت قیامت تک جاری و ساری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کی کیا ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت عامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی واضح دلیل ہے۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴) فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ(۱۷۵) (النساء: 174-175)
ترجمہ: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رسّی مضبوط تھامی تو عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گااور انہیں اپنی طرف سیدھی راہ دکھائے گا۔
اس آیت کریمہ کی رو سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے آنے والی سب سے روشن اور شیشے کی طرح بالکل صاف دلیل ہے۔
قارئین عظام! اتنی قرآنی آیات و ااحادیث مبارکہ کے باوجود بھی کوئی ختم نبوت کے آفتاب کو ماننے سے انکار کرے اور اپنا د عویٔ نبوت کر بیٹھے تو وہ دجال، کتاب اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کے اندھے مقلدین بھی گروہ کفار میں سے ہوں گے۔ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ ان کی روشنی دیکھتے ہوئے بھی سورج کا انکار کر رہے ہیں۔
کتاب الہی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی ایمان کامل ایمان ہے۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!