خارجی کا مفہوم کیا ہے؟
*لغوی معنی: خارجی، ’’خارج‘‘ کی جمع ہے جو ’’خروج‘‘ سے ماخوذ ہے، اور اس کا مطلب ہے نکلنے والا۔
*اصطلاحی معنی: ہر وہ شخص جو اہلِ سنت و جماعت کے متفقہ امام کے خلاف خروج کرے، وہ خارجی کہلاتا ہے۔
*یہ خروج چاہے خلفائے راشدین کے خلاف ہو، یا بعد کے ائمہ کے خلاف، ہر دور میں یہی حکم ہوگا۔
*یہ فرقہ حضرتِ سَیِّدُنا عثمانِ غنی اور حضرتِ سَیِّدُنا علی المرتضی رضی اللہ عنہما کے دورِ مبارک میں رونما ہوا۔
* خارجی فرقے کی سب سے بنیادی نشانی یہ ہے کہ یہ بات بات پر مسلمانوں کو مشرک کہہ کر ان سے قتال کرتا ہے۔
*اس فرقہ کے لوگوں نے حضرتِ عَلیُّ المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجیسے جلیل القدر صحابی کو مَعاذَ اللہ مشرک کہا اور ان سے لڑائی کی۔
*تاریخ میں کئی جنگیں انہی خارجیوں نے مسلمانوں کے ساتھ کی ہیں۔ آج بھی پوری دنیا میں اسلام کو نقصان پہنچانے میں اسی فرقے کا ہاتھ ہے۔
*اس فرقے کی قتل وغارت گری کی وجہ سے ایک طرف کفار اسلام پر طعن کرتے ہیں اور دوسری طرف صحیح مجاہدینِ اسلام بھی دہشت گرد ثابت ہوجاتے ہیں۔فی زمانہ کالعدم تنظیموں میں انہی عقائد کے لوگ شامل ہیں۔
خارجی فرقے کا آغاز کب سے ہوا؟
*سب سے پہلے خوارج نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے خلاف خروج کیا۔
*ان کا یہ عمل دراصل تحکیم (ثالثی)(تحکیم کے معنی حَکم بنانا یعنی فریقین اپنے معاملہ میں کسی کواس لیے مقرر کریں کہ وہ فیصلہ کرے اور نزاع کو دورکردے اسی کو پنچ اور ثالث بھی کہتے ہیں۔ (بہارشریعت ،ج۲،حصہ۱۲ ،ص۹۱۳)) کے انکار کی وجہ سے تھا جو جنگِ صفین میں پیش آیا۔
حدیثِ مبارکہ میں بھی ان کے متعلق آیا ہے کہ یہ فرقہ ختم نہ ہوگا؛ ایک گروہ ہلاک ہوگا تو دوسرا اُبھرے گا، یہاں تک کہ آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔
تاریخ میں ان کا فتنہ مختلف ناموں اور صورتوں میں جاری رہا:
تیرہویں صدی میں نجد سے ان کا خروج ہوا جو نجدیہ / وہابیہ کے نام سے پہچانا گیا۔
برصغیر میں اسمعیل دہلوی نے اس فکر کو ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے ذریعے پھیلایا۔
خوارج کی شاخیں کتنی ہیں؟
خوارج مختلف زمانوں میں مختلف شاخوں میں بٹتے رہے۔ بنیادی بڑے گروہ یہ ہیں:
1.محکمہ
2.ازارقہ
3.نجدات
4.صفریہ
5.عجاروہ
6.اباضیہ
7.ثعالبہ
خوارج کے گمراہ کن عقائد کیا ہیں؟
(الف) گناہ کے بارے میں عقیدہ
*ارتکابِ معصیت (چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ) کفر ہے۔
*مرتکبِ کبیرہ کافر ہے جب تک توبہ نہ کرے۔
(ب) دوسرے مسلمانوں کے بارے میں عقیدہ
*جو ان کے عقائد نہ رکھے وہ مشرک اور واجب القتل ہے۔
*حضرت ابراہیم خارجی کے مطابق خوارج کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں۔
*ان کے نزدیک مسلمانوں کے ساتھ سلام، نکاح، وراثت سب ناجائز تھے۔
* مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کا قتل بھی جائز سمجھتے تھے۔
(ج) نافع بن الازرق اور اس کے پیروکاروں کا عقیدہ
*جب تک ’’دار الشرک‘‘ میں رہیں مشرک ہیں، نکلنے پر مؤمن بن جاتے ہیں۔
*کبیرہ گناہ کرنے والا مشرک ہے۔
*جو ان کی رائے کا مخالف ہو وہ بھی مشرک ہے۔
(د) تحکیم کا انکار
*محکمیہ کے نزدیک جو کسی کو ’’فیصل‘‘ یا ’’حَکم‘‘ بنائے وہ کافر ہے۔
(ہ) تقدیر کا انکار
*ثعالبہ خارجی کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نہ تقدیر لکھی اور نہ ہی کچھ جاری فرمایا۔
(و) جہاد کا نظریہ
*خلفیہ خارجی کے نزدیک جو جہاد چھوڑ دے وہ کافر ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔
(ز) عذابِ قبر کا انکار
*اخنسیہ خارجی کہتے تھے کہ مرنے کے بعد میت کو کوئی بھلائی یا برائی نہیں پہنچتی۔
عصرِ حاضر کے خوارج
آج کے دور میں بھی خوارج کی فکر مختلف شکلوں میں موجود ہے۔
ان کے نمایاں عقائد و نظریات:
*توحید کے نام پر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمہم اللہ کی شان میں بے ادبی۔
*اولیاء و صالحین کی عظمت کا انکار۔
*نیک اعمال کو شرک و بدعت کہنا۔
*خوارج دراصل ایک ایسا گمراہ فرقہ ہے جو تکفیرِ مسلمین، انکارِ تقدیر، اور شدت پسندی کے باعث ہمیشہ امت میں فتنہ و فساد کا باعث بنا۔ ان کے عقائد قرآن و سنت کے بالکل خلاف ہیں اور آج بھی یہ مختلف ناموں اور لبادوں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔
علماء اہلِ سنت کی قربانیاں
یہی وجہ ہے کہ علماءِ اہلِ سنت نے ہمیشہ خارجی فتنوں کے مقابلے میں ڈٹ کر حق کا علم بلند کیا۔ ان کا امتِ مسلمہ پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ انہوں نے حق و باطل میں فرق واضح کیا اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے خوارج سے مسلمانوں کو بروقت آگاہ کیا۔
نجد سے فتنہ کے ظہور کی خبر
زبانِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نجد (موجودہ سعودی عرب کا شہر ریاض) سے ایک بڑے فتنہ کے ظاہر ہونے کی خبر دی۔ جب یہ فتنہ نمودار ہوا تو وقت کے جلیل القدر علماء نے سختی سے اس کا رد کیا اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے عظیم کوششیں کیں۔
سیِّدَہ عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی خوارج سے نفرت
مروی ہے کہ’’ام المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا جب بصرہ تشریف لائیں تو خارجی عورتوں میں سے ایک عورت نے خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی تو آپر رضی اللہ عنہا نے اجازت نہ دی۔‘‘
محمد بن عبدالوہاب کے بھائی کا رد
یہاں تک کہ محمد بن عبدالوہاب کے حقیقی بھائی، سلیمان بن عبدالوہاب نے اپنے بھائی پر سخت رد کیا اور ایک مشہور کتاب "الصواعق الالٰہیہ فی الرد علی الوہابیہ"تصنیف فرمائی، جس میں وہابیت کو پوری طرح بے نقاب کر کے اہلِ سنت کے مذہب کی زبردست حمایت کی۔
علامہ شامی حنفی کی وضاحت
علامہ شامی حنفی رحمہ اللہ نے رد المحتار میں لکھا ہے کہ: "اصحابِ رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیہ و آلہٖ و سلَّم کو معاذ اللہ کافر کہنا خارجیوں کا شعار ہے۔ ان خارجیوں کا حال یہی ہے کہ جن پر وہ خروج کرتے ہیں، اپنے عقیدے میں انہیں کافر سمجھتے ہیں۔"
خارجیوں کے کفر کا حکم
بزازیہ میں لکھا ہے کہ: "خارجیوں کو کافر کہنا واجب ہے، کیونکہ وہ اپنے سوا تمام امت کو کافر کہتے ہیں۔" (فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 234)
خارجی عقائد کی گمراہیاں
خارجیوں کے کئی عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔ ان میں سے ایک یہ عقیدہ ہے کہ:"جو مسلمان کسی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے، وہ مسلمان نہیں رہتا۔" (شرح العقائد النسفیہ، ص 253)
خارجیوں کی دلیل اور امام احمد رضا خان کا پر دلیل جواب
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے ختمِ نبوت کے موضوع پر کئی بالتفصیل رسائل تحریر فرمائے جو فتاویٰ رضویہ کی جلد 14 اور 15 میں موجود ہیں۔ انہی میں ایک بہت اہم رسالہ ہے ’’المبین ختم النبیین‘‘۔ جس میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خارجیوں اور گمراہ فرقوں کے باطل نظریات کا رد فرمایا۔ خارجیوں کا یہ گمان تھا کہ قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت 40 " وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ" میں لفظ "النَّبِیّٖنَ " پر جو "لام" آیا ہے وہ "عہد خارجی" کے لیے ہے، یعنی اس سے صرف وہ انبیاء مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے۔ ان کے جھوٹے عقیدے کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف پچھلے انبیاء کے بعد آئے، لیکن یہ بات ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے ان کے اس جھوٹے عقیدے کا سختی سے منہ توڑ جواب دیا اور فرمایا کہ یہ یہ تمہاری جھوٹی تاویل قرآن و حدیث کے ہی خلاف ہے۔ وہ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا امکان ہی کو ماننا یا خیال کرنا ہی محال ہے۔ متواتر اور قطعی احادیث میں صاف الفاظ کے ساتھ فرمایا گیا’’لا نبی بعدی‘‘(میرے بعد کوئی نبی نہیں)، اور یہ حدیث پوری امت کے نزدیک بالاجماع قطعی اور مقبول ہے۔ لہٰذا اس آیت میں "لام" استغراق کے لیے ہے، یعنی تمام انبیاء کو شامل ہے، اور اس کے معنی یہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء میں سب سے آخر اور خاتم ہیں، اور آپ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے بد مذہبوں اور جھوٹے عقائد رکھنے والے خارجیوں اور تمام بد مذہبوں کے صحبت سے دور رکھے اور اپنے نیک بندوں، اولیاء اللہ اور تمام صحیح العقیدہ علماء اہل سنّت و جماعت کا قرب خاص نصیب فرمائے آمین۔
Comments (0)
Please login to add a comment and join the discussion.
No comments yet
Be the first to share your thoughts on this article!