عقیدہ ختم نبوت ایمان کی پہلی شرط اور اصل ایمان

کیا آپ جانتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کی سب سے پہلی شرط ہے؟ کیا واقعی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا؟ یہ مضمون عقیدہ ختم نبوت کے لغوی معنی، قرآن و احادیث میں دلائل، ضروریات دین اور عوام کی سمجھ، قطعیّت اور اجماع، اور منکرین کے عقوبات کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ خاتم النبیین کی شناخت ایمان کی بنیاد ہے اور ہر مسلمان کے لیے اتباع نبی کیوں ضروری ہے؟ کیا آپ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اس عظیم عقیدہ کو صحیح طور پر سمجھ چکے ہیں؟

November 22, 2025

عقیدہ کے لغوی معنی کیا ہیں؟

عقیدہ کے لغوی معنی دل میں جمایا ہو ا یقین، ایمان اور اعتقاد کے ہیں۔

عقیدہ کے اصطلاحی معنی کیا ہیں؟

عقیدہ کی جمع " عقائد " ہے۔ مومن ہونے کیلئے جن باتوں کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ضروری ہے ان کو اسلامی عقائد کہا جاتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کی سب سے پہلی شرط اور اصل ایمان کیوں ہے؟

عقیدۂ ختم نبوت صرف عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایمان کا بنیادی ستون اور امت محمدی کو ہر دور میں اٹھنے والے فتنوں سے محفوظ رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔

عقیدۂ ختم نبوت یعنی سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اور اس بات کا اقرار کرنا کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا یہ ایمان کی پہلی شرط ،اسلام کی بنیاد اور ہر مسلمان کاپختہ یقین اور ضروریات دین سے ہے۔جس کا انکار کرنے والا یا جھوٹی تاویلات کرنے والا کافر ہے۔

جس طرح دین کے دیگر احکام کی بنیاد عقائد پر ہے، اسی طرح ضروریات دین میں شامل عقیدۂ ختم نبوت کا ماننا ایمان کے لیے شرط اول اور اصل ایمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ اپنی اہمیت و ضرورت کے لحاظ سے سب سے زیادہ بنیادی اور فیصلہ کن ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الاحزاب: 40)۔

ترجمۂ کنز العرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔

آیت ختم نبوت کا واضح اعلان

آپ نے آیتِ کریمہ ملاحظہ فرمائی جس میں اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "خاتم النبیین" قرار دے کر یہ اعلان فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام انبیاء کے بعد تشریف لانے والے ہیں۔ اس اعلان ربانی سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اب قیامت تک نہ کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی کسی کو رسالت کا شرف عطا ہوگا۔

اس فرمان الٰہی نے واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہی قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت، نجات اور فلاح کا واحد راستہ ہے۔

ضروریات دین کیا ہیں؟:

بہار شریعت میں ہے:

ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں، جیسے ا
عزوجل کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا، مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی ا علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، حضور (صلی ا علیہ وسلم) کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔

عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقہ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائل علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں، نہ وہ کہ کوردہ(یعنی،کم آباد اور چھوٹا گاؤں، جسے کوئی نہ جانتا ہواور نہ ہی وہاں تعلیم کا کوئی سلسلہ ہو۔)

اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریات دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں۔

عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد

قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو براہ راست یا اشارۃً و کنایۃً عقیدۂ ختم نبوت کی تائید اور تصدیق کرتی ہیں۔ یہ اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ ختم نبوت کوئی ضمنی یا ثانوی عقیدہ نہیں بلکہ ایمان کی پہلی شرط اور اصل ایمان ہے۔

خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بے شمار اور متواتر احادیث میں ’’خاتم النبیین‘‘ کا معنی بالکل واضح کر دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی یا رسول کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، کسی ملک یا کسی زمانے کے لیے کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت نے نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند فرما دیا ہے۔

اب ہدایت، نجات اور کامیابی کا راستہ صرف اور صرف نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔

ختم نبوت کے دلائل

قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو اگرچہ براہ راست ’’ختم نبوت‘‘ کے الفاظ میں نہیں ہیں، لیکن ان کا مفہوم اور سیاق و سباق یہ واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہی آخری شریعت ہے۔

سورہ المآئدۃ آیت 3 میں ارشادِ باری تعالٰی ہے:

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المآئدۃ: 3)۔

ترجمۂ کنز الایمان: میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

{
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ:آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا۔}

تکمیل دین سے متعلق یہ آیت مبارکہ حجۃ الوداع میں عرفہ کے روز، جمعہ کے دن ،عصر کے بعد نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ حرام و حلال کے جو احکام ہیں وہ اور قِیاس کے قانون سب مکمل کردیئے ،اسی لئے اس آیت کے نزول کے بعد بیانِ حلال و حرام کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی اگرچہ

وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ

نازل ہوئی جووعظ و نصیحت پر مشتمل ہے۔

بعض مفسرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حجۃ الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہوسکا ۔

ایک قول یہ ہے کہ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی۔

ایک قول یہ ہے کہ دین کا اِکمال یعنی مکمل کرنایہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا۔

{
وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا:اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔}

یعنی میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کرلیا کہ اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں۔

آیت ’’ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:

اس آیت سے کئی احکام معلوم ہوئے:

پہلا یہ کہ صرف اسلام
اللہ پاک کو پسند ہے یعنی جو اَب دین محمدی کی صورت میں ہے، باقی سب دین اب ناقابلِ قبول ہیں۔

دوسرا یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد قیامت تک اسلام کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا۔

تیسرا یہ کہ اصولِ دین میں زیادتی کمی نہیں ہو سکتی۔ اجتہادی فروعی مسئلے ہمیشہ نکلتے رہیں گے۔

چوتھا یہ کہ سیدُالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ دین کامل ہو چکا، سورج نکل آنے پر چراغ کی ضرورت نہیں ، لہٰذا قادیانی جھوٹے ،بے دین اور خدا پاک کے کلام اور دین کو ناقص سمجھنے والے ہیں۔

پانچواں یہ کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی لاکھوں نیکیاں کرے خدا
عزوجل کو پیارا نہیں کیونکہ اسلام جڑ ہے اور اعمال شاخیں اور پتے اور جڑ کٹ جانے کے بعد شاخوں اور پتوں کو پانی دینا بے کار ہے۔

اس آیت سے بالکل واضح ہوا کہ دین مکمل ہو گیا، رسالت عالمگیر ہو گئی اور وحی الٰہی قیامت تک محفوظ ہے، لہٰذا کسی نئے نبی یا رسول کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔

سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

محمد مصطفٰی صلی ا
علیہ وسلم آخری نبی ہیں کہ اب آپ صلی ا علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی ۔

حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام
نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم صلی ا علیہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔

حضور اقدس صلی ا علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے

یاد رہے کہ حضور اقدس صلی ا
علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی (ضروری) ہے اور یہ قطعیَّت قرآن(ضروریات قرآن) و حدیث و اجماع امت سے ثابت ہے ۔

قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی ا
علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔

جو حضور پر نور صلی ا
علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختم نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

اللہ پاک سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان (یعنی، پہلی شرط اور ایمان کی جڑ) ہے۔

یونہی
مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلی ا علیہ وسلم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقیناً محال وباطل جاننا فرض اجل وجزءِ اِیقان (یعنی، ایمان کا سب سے بڑا اور ضروری حصہ)ہے۔

وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ

نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون
مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے۔

نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر
بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔(فتاویٰ رضویہ)

مضمون کا خلاصہ •
عقیدہ ختم نبوت ایمان کی پہلی شرط اور اصل ستون ہے۔

قرآن اور احادیث واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔

ضروریات دین ہر مسلمان کے لیے لازمی ہیں۔

قطعیّت، اجماع، اور منکرین کے عقوبات مضمون میں موجود ہیں۔

مضمون علمی، تحقیقی اور ایمان کو مضبوط کرنے والا ہے۔

نوٹ: حضور پُر نور صلی ا
علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے دلائل اور مُنکروں کے رد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی14ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلْمُبِیْن خَتْمُ النَّبِیِّیْن‘‘ (حضور اقدس صلی ا علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے دلائل) اور15ویں جلد میں موجود رسالہ ’’جَزَاءُ اللہِ عَدُوَّہٗ بِاِبَائِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃِ‘‘ (ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کا رد) مطالعہ فرمائیں ۔

Tags

No tags

Comments (0)

Login Required
Please login to add a comment and join the discussion.

No comments yet

Be the first to share your thoughts on this article!